قابو يافتہ دماغ
ذہن پر قابو ہي سکون کا وسيلہ ہے(حصہ اول)
قابو يافتہ دماغ طاقت ور ہوتاہے- کمزور دماغ گناہ پر مائل ہوتے ہيں- طاقت ور دماغ ايسا کبھي نہيں کرتے- پاگل شخص کا دماغ کمزورتريں ہوتاہے، کيون کہ اسے اپنے خيالات اور حرکات پر کوئي قابو نہيں ہوتا- لہذا ذہن پر قابو رکھنا لازمي ہے-
ہمارے دماغ کي خاص بات يہ ہے کہ جب اس کا گہرائي سے مشاہدہ کيا جاتاہے تو وہ پرسکون ہونے لگتا ہے- بہتر طريقہ يہ ہے کہ کسي بيروني اور اندروني چيز پر توجہ مرکوز کي جائے- باہر کي دنيا ميں کوئي پھول يا پيڑيا اندروني دنيا ميں کوئي خيال دھيان کا مرکز بن سکتے ہيں- روزانہ بلاناغہ دھيان مرکوز کرنے کے عمل سے ہم دھيرے دھيرے ذہن پر قابو پا سکتے ہيں-
شروع ميں ناکامي ہوگي مگر اس سے بد دل نہيں ہونا چاہيے- مشق ہي سے کاميابي حاصل ہوتي ہے-
ہمارا ذہن قابو ميں آنے کے بعد ہمارا غلام بن جاتاہے- اس طرح منفي اور ضرر رسان خيالات کمزور پڑجاتے ہيں- غلط ہيجانات مدھم پڑجاتے ہيں اور ہم اخلاقي طور پر طاقت ور ہوجاتے ہيں کيوں کہ ہم جو کام کرتے ہيں، وہ شعوري ہوتاہے، جذباتي رو کے تحت نہيں- جو کام بھي مرکوز ذہن کے ساتھ کيا جاتاہے وہ بےلوث اور تخليقي ہوتاہے- يہ کيفيت حاصل ہوجائے تو ہم پر دائمي مسرتوں کے دروازے کھل جاتے ہيں-
اگرچہ قانون کے تحت شہروں ميں ہونے والے اس شور پر قابو پايا جا سکتاہے مگر اس کے نتيجے ميں سکوت اور سکون کا حصول مستقبل قريب ميں ممکن نہيں- اس کي وجہ يہ ہے کہ اگر شور نہ کرنے والي فيکٹرياں اور گاڑياں بنالي جا سکتي ہيں اور فضائي، زميني اور آبي آلودگي پر قابو پايا جا سکتاہے- مگر ايسا کرنے کي قوت ارادي ہم ميں نہيں ہے- اہل اقتدار متعلقہ قوانين نافذ کرنا چاہتے-
اب اگر ہم سکون سے رہنا چاہتے ہيں تو ہمارے ليے بس ايک ہي راستہ ہے اور وہ ہے اندروني شور پر قابو پانا- جس لمحے اندروني شور پر قابو حاصل ہوجاتا ہے کوئي بھي بيروني شور ہم پر اثر اندار نہيں ہوتا- باہري شور ايک عمل ہے اور اندروني شور اس کا ردعمل ہے- يہي منطق طبيعي دنيا ميں بھي جاري ہے- ہر طرف کروڑوں بيکٹيريا موجود ہيں- طاقت ور لوگ ان سے متاثر نہيں ہوتے، مگر کمزور لوگ ان کے شکار ہوجاتے ہيں- اسي طرح اگر خيالات پر قابو پا کر ہم ذہني طور پر طاقت ور ہو چکے ہيں تو باہر کا شور ہم پر برا اثر نہيں ڈال سکتا- تکليفوں سے بھري اس دنيا ميں پر مسرت زندگي گزارنے کا يہي ايک راستہ ہے-
ذہن ہي جسم اور اس کے افعال کو کنٹرول کرتاہے- ذہن پر پورا قابو ہو تو جسم بھي صحت مند رہتاہے اور ہوا يا پاني کي کوئي آلودگي اس پر اثر انداز نہيں ہو پاتي- ذہن درست ہے تو جسم بھي درست ہے تو جسم بھي درست رہتاہے- درست اور قابو يافتہ سوچ سے درست عمل ظاہر ہوتاہے اور اس سے زندگي بھي درست ہوتي ہے- صحيح زندگي ہي سچي زندگي ہے- سچي زندگي کا مطلب ہے ذہني طورپر ہميشہ غير مضطرب اور پرسکون ہونا- اس حالت ميں زيادہ کام کيا جا سکتاہے- ايسے ذہن کے لوگ اخلاقي تکميل کے سبب کسي کو نقصان نہيں پہنچا سکتے- ايسے لوگ فطرت کے ساتھ پوري ہم آہنگي ميں رہتے ہيں- ايسے افراد کے تحت سماج محفوظ رہتا ہے- دھيان يا مراقبہ کوئي مذہبي چيز نہيں ہے- يہ ايک سائنس ہے اور ايک کامياب اور پرسکون زندگي کا راز بھي-