ذہن پر قابو ہي سکون کا وسيلہ ہے
آواز کي آلودگي جديد دنيا کا سب سے بڑا آسيب ہے- ہم ميں سے بہت سے لوگ اس کي خطرناکي سے واقف نہيں ہيں- دن بھر مسلسل ہونے والا شور ہمارے اعصاب ميں زبردست تناۆ پيدا کرتاہے-
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آواز کي شدت ميں ذرا سا فرق، مثلا 10 ڈيسي بل سے 20 ڈيسي بل کا ، سوگنا اضافے کے مترادف ہوتاہے- ہمارے شہروں ميں 80 ڈيسي بل آواز کي شدت ايک عام بات ہے اور اگر يہ شدت 90 ڈيسي بل سے زيادہ ہوجائے تو ہم سماعت سے محروم ہو سکتے ہيں- شہروں ميں رہنے والے بہت سے لوگ لطيف آوازوں کي سماعت سے جزوي طور پر محروم ہو سکتے ہيں- ہم لطيف آوازوں سے واقف ہي نہيں- اس ليے بھيانک آوازيں ہميں پسند آنے لگي ہيں- اس کا نتيجہ يہ ہے کہ آواز کي آلودگي کے سبب ہم تھکے تھکے، چڑے چڑے اور برہمي کے شکار ہوتے جا رہے ہيں- يہاں تک پاگل پن بھي درپيش ہو سکتاہے- معمول کاموں سے تھکن نہيں ہوتي، کيون کہ کام کرنا ہماري فطرت ميں داخل ہے- مگر شور شرابے سے بھري آج کي دنيہ ہماري ساري توانائياں نچوڑ ليتي ہے-
دماغ اور ذہن آرام چاہتے ہيں مگر ہمارا آرام بھي بہت شور ہوگيا ہے کيوں کہ ہم طرح طرح کي آوازوں کے درمياں ٹيلي وژن پر شور شرابے اور تشدد سے بھرے پروگرام ديکھتے رہتے ہيں- کولکتا جيسے شہر شور شرابے کے جہنم ہيں جہاں پراني دھراني گاڑياں، لاۆڈاسپيکر اور پراني فيکٹريوں کے سائرن آسمان پر اٹھائے رکھتے ہيں-
اس کے ساتھ ہي ايک اور مسئلہ اندروني شور کا ہے- ہر منٹ تقريبا سو خيالات ہمارے ذہن سے گزرتے ہيں اور ہميں اضطراب ميں مبتلا رکھتے ہيں- بيروني اور اندروني شور ہمارے ذہن کو بے چين، مضطرب اور برہم رکھتے ہيں- اس طرح ہم عمر سے پہلے ہي بوڑھے ہونے لگتے ہيں- يہ سب کيوں ہوتاہے؟
حرکت کے ليے توانائي درکار ہے- خيال بھي ايک حرکت ہے- خيالات کي لہريں تيز رفتاري کے ساتھ پے در پے اٹھتي رہتي ہيں اور اس کے ليے توانائي کي ضرورت ہوتي ہے- بہت زيادہ خيالات کا مطلب ہے توانائي کا ضائع ہونا، جس سے ہم پر تھکن طاري ہوجاتي ہے- اس مصيبت سے نجات کا واحد راستہ دھياں اور مراقبہ ہے- ذہن ہي سب کچھ ہے- جتنے اہم ہمارے خيالات ہيں اتنے ہي اہم ہماري حرکات، صحت، خوشي اور جسم بھي ہے- کمزور دماغ مضطرب دماغ ہوتاہے- (جاري ہے)