اخوان المسلمين دہشتگرد، سعودي عرب کا الزام ( حصّہ دوّم )
سعودي عرب جو شام اور عراق ميں نہ فقط دھشتگردوں کي حمايت کررہا ہے بلکہ دھشتگردوں کي مالي معاونت کے ساتھ ساتھ دھشتگردوں کو تربيت بھي دے رہا ہے- اور اس کي کوشش ہے کہ شام،عراق اور لبنان جيسے ممالک کو ناامن کرا کے تکفيري سوچ اور فکر کو دھشتگردوں کے ذريعے ان ممالک کے عوام پر مسلط کرے- ليکن اب يوں دکھائي دے رہا ہے کہ سعودي عرب نے اپني اس پاليسي پر نظرثاني کرتے ہوئے يو ٹرن ليا ہے- اس کي کيا وجہ ہو سکتي ہے- اس کي کئي وجوہات ہو سکتي ہيں- ليکن ان ميں سے اہم ترين وجہ شايد يہ ہو کہ سعودي عرب، شام اورعراق ميں جو کچھ چاہ رہا تھا اس ميں اسے ناکامي کا منہ ديکھنا پڑا- اور دن بدن نہ فقط شام کي حکومت مضبوط ہو رہي ہے بلکہ کئي علاقوں کا دوبارہ شامي افواج نے کنٹرول سنبھبال ليا وہيں شامي دھشتگردوں ميں اختلافات اس قدر شديد ہو گئے کہ وہ ايک دوسرے کے خون کے پياسے بن گئے اور شامي دھشتگردوں کے مابين ہونے والي جھڑپوں ميں درجنوں دھشتگرد ہلاک اور ہوئے- جبکہ شامي فوج کي جانب سے ہونے والي کاروائيوں ميں کئي دھشتگرد گرفتار بھي ہوئے جنہوں نے اہم انکشافات کئے اور سعودي عرب کي جانب سے دھشتگردي کي حمايت اورانھيں ٹريننگ دينے سے متعلق اہم انکشافات کے بعد عالمي سطح پر سعودي عرب کي ساکھ بري طرح متاثر ہوئي- جس کي وجہ سے سعودي ،عرب نے نہ فقم فقط داعش اور جبھۃالنصرہ کو دھشتگرد گروپ قرار ديا بلکہ شام ، عراق، لبنان اور دوسرے ملکوں اورعلاقوں ميں دھشتگردي کرانے کي غرض سے بھيجنے والے دھشتگردوں کو 15 دن کے اندر اندر سعودي عرب واپس آنے کو کہا- اور سعودي عرب کے اس اعلان کے بعد لا شعوري طور پر سعودي عرب کي حکومت نے يہ تسليم کيا کہ سعودي دھشتگردوں کو آل سعود کي حمايت حاصل تھي اور حکومت نے ہي ان دھشتگردوں کو مختلف ممالک ميں بھيجا تھا تاکہ دھشتگردي کے ذريعے تکفيري فکر کي پرچار کريں- ليکن شايد سعودي حکومت يہ بات بھول گئي تھي- کہ طاقت، زور اورزبردستي کے تحت اگر اپني سوچ اور فکر کو مسلط کيا جا سکتا تھا تو يہ کام سعودي عرب کي حکومت سے قبل کي سامراجي حکومت بشمول امريکہ کر چکا ہوتا ليکن سعودي حکمرانوں کو اب نوشتئہ ديوار پڑہ لينا چاہئيے کہ جيت ہميشہ حق ہي کي ہوتي ہے- چاہے اس ميں کچھ وقت ہي کيوں نہ لگ جائے ۔
بشکریہ اردو ریڈیو تھران
متعلقہ تحریریں:
ايران کے اسلامي انقلاب کے خلاف تکفيري سازش ( حصّہ سوّم )