گناہگاروں کي آسائش کا فلسفہ ( حصّہ پنجم )
قرآني اصطلاحات ميں سے ايک " بلاء حسن " بھي ہے سورۂ انفال کي آيت 17 ميں ارشاد ہوتا ہے " وليبلي المۆمنين منہ بلاء حسنا " تاکہ صاحبان ايمان پر خوب اچھي طرح احسان کردے کہ وہ سب کي سننے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے - بلا کے معني آزمائش اور آزمانے کے ہيں - امتحان کا جو فلسفہ ہے اس ميں اسي بات پر تاکيد ہے کہ انسان ان آزمائشوں ميں اپني صلاحيتوں ميں اضافہ کرسکتا اور اپني استعداد کو اجاگر کرنے کے ساتھ ہي کمالات کي اعلي منازل کو طے کرسکتا ہے - درحقيقت الہي آزمائشيں ، محض استعدادوں اور صلاحيتوں کا اندازہ لگانے کے لئے نہيں ہوتيں بلکہ نئي صلاحيتيوں اور توانائيوں کے ظہور اور ان ميں اضافے کا سبب ہوتي ہيں - چنانچہ اميرالمۆمنين حضرت علي ابن ابيطالب (ع) فرماتے ہيں : بلا و آزمائش ، ستمگر کے لئے ادب ، سزا اور تنبيبہ ہے جبکہ مۆمنين اور پيغمبروں کے لئے آزمائش ، درجات اور مرتبے ميں بلندي کے لئے ہے -
سختياں اور گرفتارياں ، ترقي وکمال کا پيش خيمہ ہيں - قرآن کريم سورۂ بلد کي آيت چار ميں ارشاد فرمارہا ہے ہم نے انسان کو سختي اور مشقت ميں رہنے والا بنايا ہے - اس بناء پر انسان کو چاہئے کہ مشقتوں اور مصائب کو برداشت کرے اور سختيوں کے مقابلے ميں استقامت کرے تاکہ کمال تک رسائي حاصل کرسکے - حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہيں مخلوقات کے درميان سب سے شديد بلاۆں ميں پہلے انبياء عليھم السلام اور پھر ان کے اوصياء اور اس کے بعد انبياء و اوصياء جيسے کمالات کے حامل انسان گرفتار ہوتے ہيں - مومن کو اس کي نيکيوں کي مقدار کےبرابر آزمائش ميں ڈالا جاتا ہے جو کوئي اپنے دين و ايمان ميں پختہ اور نيک عمل ہوگا اس کي بلائيں بھي شديد ہيں کيوں کہ خداوند عالم نے دنيا کو، مومن کے لئے جزا ، اور کافر کے لئے سزا اور عذاب کا وسيلہ قرار نہيں ديا ہے - اسي بناء پر جنہيں معرفت الہي کے مراتب حاصل ہيں ان کے لئے وہ چيز جو عام انسانون کے نقطۂ نگاہ سے سخت اور ناقابل تحمل ہے ، ان کے لئے شيريں اور پسنديدہ ہے - کيوں کہ وہ جانتا ہے کہ يہ سختياں اسے خدا سے نزديک کرديں گي - دنيا کي مصيبتيں نہ صرف ان کو خدا سے دور نہيں کرتيں بلکہ وہ ان مصيبتوں کو برداشت کرکے دنيا ميں بھي معنوي لذتيں حاصل کرتے ہيں اور آخرت ميں بھي معنوي اجر وپاداش کے مستحق قرار پاتے ہيں -
بعض مومنين کي آزمائش اور ابتلاء اس بناء پر ہے تاکہ ان کے دلوں سے زنگ دور ہوجائے اور وہ بہشت کے اعلي مقام کے مستحق اور لائق قرار پاسکيں - حضرت امام محمد باقر (ع) فرماتے ہيں خداوند عالم کيوں کہ اپنے بندوں کو چاہتا اور ان سے محبت کرتا ہے اس لئے ان پر مصيبتيں اور بلائيں نازل کرتا ہے اور جب يہ بندہ خدا کو اس عالم ميں پکارتا ہے تو خدا فرماتا ہے لبيک اے ميرے بندے بيشک اگر ميں چاہوں تو تيري دعا جلدي بھي قبول کرلوں ليکن ميں چاہتا ہوں کہ اسے آخرت کے لئے ذخيرہ کردوں کہ جو تيرے لئے بہتر ہے - امام محمد باقر(ع) اس دنيا ميں مومنين کي گرفتاريوں کے بارے ميں فرماتے ہيں :خداوندعالم اپنے مومن بندے کي ، رنج وبلا کے ذريعے دلجوئي کرتا ہے -جس طرح سے کہ ايک انسان کسي سفر سے ہديہ ليکر آتا ہے تو اس کے ذريعے سے اپنے گھر والوں کي دلجوئي کرتا ہے اور خدا مومن کو دنيا سے دور رکھتا ہے جس طرح سے کہ طبيب بيمار کو بعض کھانے اور پينے والي چيزوں سے پرہيز کرنے اور دوري اختيار کرنےکو کہتا ہے - ( ختم شد )
بشکريہ اردو ريڈيو تھران
متعلقہ تحریریں:
عقل خدا کي لازوال نعمت
گناہوں سے توبہ ميں جلدي کريں