گناہگاروں کي آسائش کا فلسفہ ( حصّہ چہارم )
يہاں تک کہ آپ نے فرمايا:
”اس زمانے ميں کچھ افراد ايسے ہوں گے کہ صرف قرآن کي ايک آيت سن کر (اس کي تحريف کريں گے) اور خدا کے دين سے نکل جائيں گے اور ہميشہ وہ ايک حاکم کے دين کي طرف اور ايک شخص کي دوستي سے دوسرے کي دوستي کي طرف اور ايک حکمراں کي اطاعت سے دوسرے حکمراں کي اطاعت کي طرف اور ايک کے عہد و پيمان سے دوسرے کي طرف منتقل ہوتے رہيں گے اور آخر کار ايسے راستے سے کہ جس کي طرف ان کي توجہ نہيں ، پروردگار کي استدراجي سزا ميں گرفتار ہوجائيں گے -
فرزند رسول خدا حضرت امام حسين (ع) استدراج کي تعريف ميں فرماتے ہيں " استدراج کا معني يہ ہےکہ خدا اپني نعمت کو اپنے بندے پر انڈيل ديتا ہے اور دوسري طرف ، اس سے شکر کي نعمت کو سلب کرليتا ہے - اس بناء پر استدراج کے آثار ونتائج ميں سے ايک ناشکري ہے البتہ اس امر پر توجہ دينا چاہئے کہ جو کوئي خدا کي نعمت سے بہرہ مند ہواور وہ خدا کا شکرگذار بھي ہو توايسا شخص استدراج کا مصداق نہيں ہے - حضرت امام صادق (ع) کے ايک صحابي نے عرض کي ، ميں نے خدا سے مال طلب کيا تھا اس نے مجھے روزي عطاکي ، ميں نے خداسے بيٹا مانگا اس نے وہ بھي مجھے عطا کيا ، گھر کي طلب کي وہ بھي مرحمت فرمايا اس لئے ميں ڈرتا ہوں کہ کہيں يہ استدراج يا تدريجي عذاب نہ ہو ، امام صادق (ع) نے فرمايا اگر يہ تمام نعمتيں، تمہاري جانب سے شکر کے ساتھ مل رہيں ہيں تو يہ استدراج ميں شامل نہيں ہے -
اکثر افراد نعمت کو، پيسے اور سلامتي کے سوا اور کچھ نہيں سمجھتے جبکہ يہ سوچ صحيح نہيں ہے بلکہ مال و ثروت کے مقابلے ميں، انسان کا عکس العمل اس بات کو واضح کرتا ہے کہ يہ نعمت ہے يا نہيں - وہ شخص جو مال و ثروت اور اپني سلامتي کو، رضائے الہي اور خدمت خلق ميں صرف کرتا ہے اور شکر خدا بھي بجا لاتا ہے تو يقيني طور پر وہ نعمت الہي سے بہرہ مند ہے ليکن اگر يہي مال اور سلامتي غرور اور اسراف کا سبب بن جائے تو وہ نہ صرف نعمت نہيں ہے بلکہ عذاب بھي بن سکتي ہے - اس کے مقابلے ميں بہت سے ايسے فقيرو نادار لوگ ہوتے ہيں جو اپني فقيري و غربت کے سبب نا شکري اور کفرکي بات زبان پر لاتے ہيں اور جہنمي ہوجاتے ہيں - ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
گناہ سے کيسے بخشش حاصل کي جاۓ
انسان کو توبہ کا وقت ملتا ہے