گناہگاروں کي آسائش کا فلسفہ ( حصّہ سوّم )
استدراجي سزا“ کے بارے ميں آيات قرآن اور احاديث ميں بھي تفصيل سے بيان کيا گيا ہے اس کي توضيح يہ ہے کہ خدا گنہگاروں اور منہ زور سرکشوں کو ايک سنت کے مطابق فوراً سزا نہيں ديتا بلکہ نعمتوں کے دروازے ان پر کھول ديتا ہے تو وہ زيادہ سرکشي دکھاتے ہيں اور خدا کي نعمتوں کو ضرورت سے زيادہ اکٹھا کر ليتے ہيں - اس کے دو مقاصد ہوتے ہيں يا تو يہ نعمتيں ان کي اصلاح اور سيدھے راستے پر آنے کا سبب بن جاتي ہيں اور اس موقع پر ان کي سزا دردناک مرحلہ پر پہنچ جاتي ہے کيونکہ جب وہ خدا کي بے شمار نعمتوں اور عنايتوں ميں غرق ہوجاتے ہيں تو خدا ان سے وہ تمام نعمتيں چھين ليتا ہے اور زندگي کي بساط لپيٹ ديتا ہے ايسي سزا بہت ہي سخت ہے -
البتہ يہ معني اپني تمام خصوصيات کے ساتھ صرف لفظ استدراج ميں پنہاں نہيں ہے -
بہر حال استدراج سے متعلق آيت ميں تمام گنہگاروں کے لئے تنبيہ ہے کہ وہ عذاب الٰہي کي تاخير کو اپني پاکيزگي اور راستي يا پروردگار کي کمزوري پر محمول نہ کريں اور وہ عنايات اور نعمتيں جن ميں وہ غرق ہيں انھيں خدا سے اپنے تقرب سے تعبير نہ کريں - اکثر ايسا ہوتا ہے کہ جو کاميابياں اور نعمتيں انھيں ملتي ہيں - پروردگار کي استدراجي سزا کا پيش خيمہ ہوتي ہيں - خدا انھيں اپني نعمتوں ميں محو کرديتا ہے اور انھيں مہلت ديتا ہے انھيں بلند سے بلندتر کرتا ہے ليکن آخر کار انھيں اس طرح زمين پر پٹختا ہے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے - اور ان کے تمام کاروبار زندگي اور تاريخ کو لپيٹ ديتا ہے -
اميرالمومنين حضرت علي (عليہ السلام) نہج البلاغہ ميں فرماتے ہيں -
وہ شخص کہ جسے خدا بے بہا نعمات اور وسائل دے اور وہ اسے استدراجي سزا نہ سمجھے تو وہ خطرے کي نشاني سے غافل ہے -“(1)
نيز حضرت علي (عليہ السلام) سے کتاب ”روضہ کافي“ ميں نقل ہوا ہے آپ نےفرمايا: ايک ايسا زمانہ آئے گا جس ميں کوئي چيز حق سے زيادہ پوشيدہ اور باطل سے زيادہ ظاہرو آشکار اور خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنے سے زيادہ نہيں ہوگي -“ ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
عقل خدا کي لازوال نعمت
گناہوں سے توبہ ميں جلدي کريں