گناہگاروں کي آسائش کا فلسفہ
ايک سوال جو شايد آپ کو درپيش آتا ہو يہ ہے کہ بعض کافر اورگناہگا افراد کيوں کر دنيا ميں اچھي اور خوشحال زندگي گذارتے ہيں ؟ يا يہ کہ کيوں بہت سے مواقع پر کفار اور گناہگار مسلمان اور فاسق ، مومنين اور متقين سے بہتر حالت ميں ہيں ؟ کيوں بہت سے معاشرے جوکلي طور پر خدا اور پيغمبر کے منکر ہيں ، زيادہ رفاہ و آسائش سے بہرہ مند ہيں ؟ کبھي اس سے بڑھ کر يہ سوال پيش آتا ہے اور بطور طعنہ کہا جاتا ہے کہ تمام عذاب اور مسائل مسلمانوں کےلئے ہي کيوں ہيں ؟ جبکہ کفار آرام و آسائش سے ہيں اور يورپي ممالک کہ جن کے پاس ايمان نام کي کوئي چيز نہيں ہے وہ ہم مسلمانوں سے زيادہ آرام و سکون سے زندگي گذار رہے ہيں -
البتہ اس پہلے اعتراض کا جواب واضح ہے - بہت سے کفار اور گناہگار افراد ، خاص طور پر افريقہ ، ايشياء اور جنوبي امريکہ ميں مادي لحاظ سے مناسب حالات ميں زندگي نہيں گذار رہے ہيں جبکہ مسلمان اور حتي بہت سے مومنين بھي ايسے ہيں جو خوشحالي اور عشرت ميں زندگي گذار رہے ہيں - اور تاريخ پر طائرانہ نظر ڈالنے سے بھي ہميں يہ ملتا ہے کہ بہت سے مومنين اور حتي پيغمبروں ، جيسے حضرت داۆد ، سليمان اور يوسف عليھم السلام ، کے پاس بھي بہت زيادہ دولت وثروت تھي ليکن وہ اپني اصلي دولت کو، خدا پر ايمان قرار ديتے تھے -
ليکن ايک مجموعي جواب کے طورپر يہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم نے دنيوي نعمتوں کو سب کے اختيار ميں ديا ہے خواہ مومن ہو يا کافر ، ليکن ايمان اور عمل صالح کي جزا عالم آخرت ميں مۆمنين کے لئے ہي ہے - خداوند عالم سورۂ اسراء کي آيت 18 ميں فرماتا ہے جو شخص بھي دنيا کا طلبگار ہے ہم اس کے لئے جلد ہي جو چاہتے ہيں دے ديتے ہيں پھر اس کے بعد اس کےلئے جہنم ہے جس ميں وہ ذلت و رسوائي کے ساتھ داخل ہوگا - اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور اس کے لئے ويسي ہي سعي بھي کرتا ہے اور صاحب ايمان بھي ہے تو اس کي سعي يقينا مقبول قراردي جائے گي - ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
کيا توبہ کے ليۓ شرائط ہيں ؟
گناہ سے کيسے بخشش حاصل کي جاۓ