فلسطيني مجلس قانون ساز کے رکن جمال نتشہ سے گفتگو (حصّہ دوّم )
قيد تنہائي کے دوران صرف يہ نہيں کہ قيدي کو ايک کمرے ميں بند کر ديا جاتا ہے.تنہائي کے سزا کے ليے مخصوص قيديوں کے ليے کوٹھڑياں بھي الگ الگ مخصوص ہيں جو نہايت تنگ اور تاريک ہيں ، جن ميں کوئي روشن دان اور کھڑکي تک نہيں ہوتي. نيز ان تنگ کمروں کے اندر بھي قيديوں کو بيشتر ہاتھ باندھ کر خالي فرش پر پھينک ديا جاتا ہے. بعض اوقات يہ سلسلہ چوبيس گھنٹے تک جاري رہتا ہے.
مرکز اطلاعات فلسطين: آپ طويل مدت تک اسرائيل کي مختلف جيلوں ميں منتقل کيے جاتے رہے. اس دوران آپ نے يقينا ديگر قيديوں کے ساتھ بھي وقت گذارا ہو گا. بالخصوص تنہائي کا شکار قيديوں کو کس طرح کے حالات کا سامنا تھا؟
شيخ جمال نتشہ: يہ درست ہے کہ صرف مجھے ہي نہيں بلکہ بيشتر قيديوں کو ايک کوٹھڑي سے دوسري ميں اورايک جيل سے دوسري جيل ميں منتقل کرنے کا عمل ايک معمول رہا ہے. اس دوران ہمارے ساتھ قيدِ تنہائي ميں کئي صہيوني قيدي بھي رہے. صہيوني قيديوں کي بہبود کے ليے يہوديوں کي انساني حقوق کي تنظيميں کام کرتي تھيں. تاہم فلسطيني قيديوں کے حقوق پر ان کي طرف سے کوئي خاص توجہ نہيں دي جاتي تھي. قيديوں کے حقوق اور مسائل کے ليے ہم خود ہي کوششيں کرتے تھے. ہمارے ساتھ مجاھد اسير برادر محمود عيسيٰ قيديوں کے مسائل کے ليے سب سے زيادہ سرگرمي کا مظاہرہ کرتے، گوکہ ان کي کوششوں کي وجہ سے بسا اوقات انہيں سخت ترين سزا کا بھي سامنا کرنا پڑتا-
ميں اس ميں يہ اضافہ کرتا چلوں کہ اسيري کے دوران ميں ايسے خطرناک امراض کے شکار مريض اسيروں کے درميان بھي رہا. ايسے مريض جن کے بارے ميں ان کي ميڈيکل رپورٹس کے مطابق ان کي زندگي صرف ايک ہفتہ يا چند دن تک تھي. اتني حساس اور نازک حالت کے باوجود اسرائيلي جيل اہلکار انہيں نہ صرف رہا نہ کرتے تھے بلکہ ان کے علاج معالجے پربھي کوئي توجہ نہ دي جاتي تھي. اسي حالت ميں رہتےہوئے وہ بالآخر اسيري کي حالت ميں جام شہادت نوش کر جاتے. ميري اسيري کے دوران ايسے کئي اسير تھے جو علاج کي سہولت نہ ملنے کے باعث جان جان آفرين کے سپرد کر گئے. بعض قيديوں کو جيلوں سے رہا تو کر ديا گيا تاہم علاج کي سہولت نہ ملنے کے باعث وہ جاں بر نہ ہو سکے اور وفات پا گئے. ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
قبلہ اول کے خلاف سنگين صہيوني اقدامات
يوم القدس اور عالم اسلام