• صارفین کی تعداد :
  • 527
  • 1/29/2014
  • تاريخ :

مصر کي فوج اقتدار پر قبضے کے درپے

مصر کی فوج اقتدار پر قبضے کے درپے

مصر کي فوجي کونسل نے ايک بيان جاري کر کے آئندہ صدارتي انتخابات ميں  باضابطہ طور پر عبدالفتاح سيسي کے نامزد ہونے کي حمايت کي ہے- اہم بات يہ ہے کہ مصر کي فوجي کونسل نے صدارتي انتخابات ميں عبدالفتاح سيسي کے نامزد ہونے کي حمايت کے علاوہ ان کے ملٹري رينک کو بڑھاتے ہوئے ان کو جنرل سے جنرل آفيسر کے عہدے پر ترقي دے دي ہے- عبدالفتاح سيسي کے عہدے ميں يہ ترقي شائد ان کو مرسي کے خلاف کودتا اور سياسي ميدان ميں فوجيوں کي واپسي کا راستہ ہموار کرنے کے صلے ميں دي گئي ہے-

بہرحال يہ بات واضح ہےکہ مصر کي فوج ملک ميں ايک بڑا کام کرنے جارہي ہے- فوجي کمانڈروں اور اعلي عہديداروں کو اقتدار ميں واپس لانا وہ بڑا کام ہے جو صرف فوج ہي کر سکتي ہے- اس مقصد کے حصول کے لۓ مصر کي فوج نے ايک سال قبل پلاننگ کي تھي- مصري عوام کے منتخب صدر محمد مرسي کے خلاف سول نافرماني کي تحريک ، ان کے خلاف کودتا ، ان کي گرفتاري اور مسلسل قيد رکھا جانا ان کي حکومت کي سرنگوني اور اخوان المسلمين پر قابو پانے کے سلسلے ميں پہلے سے طے شدہ اقدامات تھے- دوسرے مرحلے ميں فوجيوں نے عبوري حکومت اور اپنے نامزد کردہ صدر عدلي منصور کے توسط ايسے قوانين منظور کروائے جن کے ذريعے مخالفين کو سياسي ميدان سے باہر نکالا جا سکتا تھا- اخوان المسلمين پر پابندي مصر کي عبوري حکومت کا ايک سوچا سمجھا منصوبہ تھا- آئين کے بارے ميں ريفرينڈم کے انعقاد کے بعد سياست ميں فوجيوں کي واپسي کے آخري مرحلے پر عملدرآمد کا راستہ ہموار ہو چکا ہے-

اس سے پہلے يہ طے پايا تھا کہ آئين کي منظوري کے بعد پہلے پارليماني انتخابات اور اس کے بعد صدارتي انتخابات کا انعقاد عمل ميں لايا جائے گا ليکن اب فوجي عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارليماني انتخابات سے قبل صدارتي انتخابات کروانے کے درپے ہيں-

مصر ميں فوج کو جو طاقت حاصل ہے اس کے پيش نظر يہ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ صدارتي انتخابات کا نتيجہ وہي برآمد ہو گا جو فوج چاہتي ہے- فوج نے مصر کے مستقبل کے لۓ بہت سے منصوبے بنا  رکھے ہيں- مصر ميں صدارتي انتخابات ايک باضابطہ پلاننگ کے تحت ہو رہے ہيں اور ان کا نتيجہ سياسي ، اقتصادي اور سماجي ميدانوں ميں فوجيوں کي روائتي طاقت کا احياء ہے- مصر کي فوج اس سناريو پر عملدرآمد کے درپے ہے-

مصر کي عصر حاضر کي تاريخ ميں اقتدار مکمل طور پر فوجيوں کے ہي ہاتھ ميں رہا ہے- جمال عبدالناصر سے لے کر اب تک مصر کے تمام صدر فوجي ہي تھے- شائد يہ کہنا بے جا نہيں ہو گا کہ ايک سال کا وہ عرصہ جس ميں محمد مرسي اخوان المسلمين کے نمائندے کے طور پر صدر رہے ، مصر کي تاريخ ميں استثناء کي حيثيت رکھتا ہے-

بعض سياسي ماہرين کا کہنا ہے کہ اس ايک سال کے دوران اخوان المسلمين کي جانب سے فوجيوں کے ساتھ اشتراک عمل نہ کۓ جانے کي وجہ سے فوج محمد مرسي کي مخالفت کے علاوہ اقتدار اپنے ہاتھ ميں لينے کي پلاننگ کرنے لگ گئي-

يہ بھي ايک ناقابل انکار حقيقت ہےکہ دقيانوس عرب ممالک اور امريکہ بھي مصر کے سياسي ميدان ميں فوج کي واپسي کا حامي ہے اور مصر کي فوج اسي حمايت پر بھروسہ کۓ ہوئے ہے- مصر کي فوج ، کہ جو سيسي کو اقتدار پر اپنے قبضے کي علامت جانتي ہے ،  سيسي کو صدر بنا کر ايک بار پھر مصر ميں ايک اور انداز ميں فوجيوں کي حکومت قائم کرنا چاہتي ہے- اور يہ چيز درحقيقت مصر ميں مبارک ازم کے احياء اور مصر کو انقلاب سے پہلے والي حالت ميں واپس لے جانے کا مصداق ہے-


متعلقہ تحریریں:

مصر کے حالات کا جائزہ، يورپي يونين کا ہنگامي اجلاس

مصر کي تشويشناک صورتحال