انقلاب اسلامي ايران اور خواتين ( حصّہ چہارم )
ايران ميں اسلامي انقلاب کي کاميابي کے بعد عورت کو معاشرے ميں ايک خاص اہميت بخشي گئي جس کا ماضي سے موازنہ نہيں کيا جا سکتا ہے - ايران کي سياسي تاريخ ميں پہلي دفعہ 1906ء( 1285ھ-ش) ميں عام لوگوں کي مشارکت ،ملک کے ساري اور جاري امور ميں مقبول ہوئي-افسوس کي بات ہے کہ ملک کے پہلے قانون اساسي کي تدوين ميں ،عورتوں کے سياسي حقوق نظر انداز کيے گئے اور معاشرے کے اس طبقہ کو حقير اور قتل و غارت کرنے والوں ميں شمار کيا جاتا تھا - پہلوي اول کي حکومت کے دوران عورت ابھي بھي انساني حقوق سے محروم رہ گئي تھي اور اس کو سياسي امور ميں مشارکت کي اجازت نہيں تھي- چاليسويں شمسي دہائي ميں عورتوں کو رائے دينے کي اجازت باعث بني کہ صرف اونچے طبقے کي بعص عورتوں کو سياسي ذمہ دارياں مل جائيں اور حکومت نے يہي کم تعداد عورتوں کي مشارکت سے ،عوام فريبانہ پروپيکنڈے اور حقوق عورت اور مرد کي برابري کا غلط فائدہ اٹھايا -ليکن عورتوں کو رائے دينے کا اصلي ہدف ،جو عام عورتوں کي مشارکت کا زمينہ فراہم کرنا ہے کبھي بھي پورا نہيں ہوا - ليکن انقلاب اسلامي کي پيروزي کے بعد عورتوں کي مشارکت کے متعلق ،جمہوري اسلامي کے قانون اساسي ميں واضح موقف نمايان ہوا-اس قانون ميں،لفظ اور معني ميں کوئي اختلاف ،جنس کے لحاظ سے مقرر نہيں ہوا ہے اور عورتوں کي مشارکت کا سب ميدانوں ميں موقع فراہم کيا گيا -اس قانون ميں عورت کي سماجي منزلت کي حمايت بھي کي گئي ہے اور يہ انقلاب اسلامي کا نتيجہ ہے کہ اس اسلامي معاشرے ميں ،خواتين اسلام کے عطا کردہ حقوق کي برکات سے سماجي ،سياسي،معاشرتي،آموزشي،سب ميدانوں ميں فعّال کردار ادا کر سکتي ہيں-خواتين انقلاب کي پيروزي کے بعد تعليم اور صحت کے لحاظ سے بھي ايک مطلوب سطح کو پہنچ گئي ہيں-رضا خان کي سلطنت کے دوران،عورتوں کو عمومي مشاغل ميں حصّہ لينے کي اجازت نہيں تھي-ہر چند کہ خواتين کا ان پڑھ ہونا، ان کي مشارکت کي رکاوٹ بن گئي تھي ليکن اس کے با وجود ،محدود تعداد کي پڑھي لکھي عورتوں کو بھي روزگار نہيں ملتا تھا- ليکن انقلاب کي پيروزي کے بعد خواتين کي معاشي مشارکت بڑھ گئي- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
مسلمان عورت کي عزّت
خواتين کي مصلحت