• صارفین کی تعداد :
  • 2327
  • 2/4/2014
  • تاريخ :

اردو ادب ميں مرثيہ نگاري  ( حصّہ دھم  )

قمہ زنی 2

لکھنو پہنچ کر مرثيے ميں رسومات اور تہذيبي مظاہر کي تصوير کشي نے زيادہ جگہ بنائي - نفاست پسندي نے اپنا حسن دکھايا اور تہديبي افکار کي سطح بلند ہوئي - سرزمين عرب ميں وقوع پذير ہونے والے ايک سانحے کو نظم کرتے ہوئے شاعر کا ذہن ماضي ميں پہنچ کر جب اس واقعے کو لفظوں ميں ڈھالنے کي کوشش کرتا ہے گرد و پيش کي فضاء يہاں کے تہذيبي محرکات ،طرز معاشرت ،انداز فکر اور پورا معاشرتي ماحول اس کے تخيل کو اپنے طلسم ميں اسير کرليتا ہے اور اپنے رنگ ميں ڈبو ديتا ہے اس لئے اردو مرثيے کا نقاد عزائي کلام ميں ہندوستاني عناصر کي پذيرائي ان کے عمل دخل اور کار فرمائي کو يکسر نظر انداز نہيں کر سکتا - يہاں اعتذار کي ضرورت نہيں کيونکہ ہندوستاني عناصر مرثيے کے ادبي حسن ،اثر آفريني اور شعري کشش کے ضامن ہيں اور قاري کو اپنے کرداروں سے جذباتي طور پر قريب کر ديتے ہيں اور ان کا انجذاب اور ان سے موانست زماني اور مکاني بُعد کو مٹاديتي ہے يہ اشعار ملاحظہ ہوں -

سرکو لگا کے چھاتي سے زينب نے يہ کہا

تو اپني مانگ کو کھ سے ٹھنڈي رہے سدا

کي عرض مجھ سي لاکھ کنيزيں ہوں تو فدا

بانوئے نامور کو سہاگن رکھے خدا

مہندي تمہارا لال ملے ہاتھ پاۆں ميں

لاۆں دلہن کو بياہ کے تاروں کي چھاۆں ميں

ہندوستاني ماحول ،ہندوستاني خواتين کے جذبات و احساسات اور ان کے انداز گفتگو نے اردو مرثيوں ميں مناظر کو متحرک اور جاندار ہي نہيں پُر درد اور دلگداز بھي بنا ديا ہے - روز عاشور امام حسين اہل حرم سے رخصت کيلئے آتے ہيں -

دکني مراثي ترجيع بند و ترکيب بند کي صورت ميں لکھے جاتے تھے ان کے علاوہ مراثي مربع شکل ميں بھي دستياب ہيں-

مجلس عزا ميں مصائب اہل بيت اطہار و اصحاب امام حسين ع کے ساتھ فضائل کا بيان ہوتا تھا يہاں شعرانے پندو نصائح اخلاق آموزي کے تجربات کرکے مرثيہ کي روايات کو توسيع دينے کي کوششيں فرمائيں-

اورنگ زيب بہادر نے بالاخر مغلوں کي دکني پاليسي کو کاميابي سے ہم کنار کيا قطب شاہيہ اور عادل شاہيہ خاندانوں کا خاتمہ ہوا ---

اورنگ آباد صدر مقام ہوا- گولکنڈہ‘ بيجاپور‘ گلبرگ‘ بيدر کي رونقيں ادھر سمٹ آئيں نتيجہ يہ بھي ہوا کہ بادشاہ ‘ مغل گورنر‘ جلوس علم‘ تعزيہ ذوالجناح ميں شريک نہيں ہوسکتے تھے شاہي ذاکر‘ مرثيہ خواں موقوف کرديئے گئے عزا خانوں کے خادموں کي مدد معاش بند کر دي گئي-

مگر چند در چند شعرا درباري سرپرستي سے محروم ہو کر بھي توشہ آخرت کي فراہمي کے لئے مرثيہ گوئي اور مدحت اہل بيت ميں مصروف رہے- ذوقي‘ اشرف‘ نديم‘ نسيم‘ نے مراثي غزل و قصيدہ کي ہيئت ميں انشاء کئے اشرف ‘نديم ‘و نسيم‘ زبان صاف ستھري لکھتے تھے- سيد اشرف بڑے خلوص و پيار سے مرثيہ انشاء کرتے تھے‘ نديم سيد تھے جن کا تعلق عادل شاہي دور سے تھا- عادل شاہي‘ قطب شاہي حکومتيں ختم ہوگئيں ليکن دور دراز علاقوں ميں حکام اور رعايا پراني روش سے ہٹنے کے واسطے تيار نہيں تھے اسي زمانہ ميں فياض ولي نے شہادت نامہ لکھا يہ مرثيہ بصورت مثنوي بڑا مقبول ہوا - ( جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

قمہ زني

کربلا منزل بہ منزل