اردو ادب ميں مرثيہ نگاري ( حصّہ ہشتم )
اردو شاعري کے تہذيبي مزاج ،اس کي جمالياتي قدروں کي تہہ داري اور فني رچاۆ کي تفہيم کا سلسلہ ثقافتي روابط اور عمراني رشتوں سے جا ملتا ہے - جديد ادب ميں تہذيبي مطالعے کے تعمق اور ادب کے تشکيلي عناصر کي معنويت اور تفہيم و تحسين کي اہميت منکثف ہو چکي ہے - دکن ،دہلي اور لکھنۆ کي تہذيب بنيادي طور پر ايک ثقافتي و حدت کي نمائندگي کرتے ہوئے بھي مقامي رجحانات سے پيدا ہونے والے اختلافات کي بناء پرمخصوص عمراني خد و خال کي ترجمان تھي - اردو مراثي کو ان تينوں ادبي مرکزوں ميں پھلنے پھولنے اور فني حسن کو نکھارنے کا موقع ملا تھا - اس حزنيہ ادبي پيکر کے حلقہ اثر کي توسيع کے تصور نے بھي اسے تہذيبي مظاہر اور مقاميت کے مانوس عناصر سے ہم آہنگ کرديا تھا -
مرزا بيچاپوري واحد شاعر ہيں جنہوں نے صرف مراثي سيد الشہداء انشا کئے علي عادل شاہ کي فرمائش قصيدہ پر مرزا بيجاپوري نے قصيدہ مدحيہ نہيں لکھا ايک نو تصنيف مرثيہ سلطان کے نام سے منسوب کيا- سلاطين بہمنيہ کے دور ميں اہل فرقہ و خانقاہ ہي مرثيہ نگاري کي جانب متوجہ ہوئے دوسرے مرثيہ گو شعرا ميں-
نصرتي ‘ شاہ ملک ‘ نادر ‘ ہاشمي شامل ہيں جنہوں نے بيجاپوري مرثيہ گوئي کي روايت مستحکم فرمائي قطب شاہي مملکت ميں ايراني اثر و رسوخ بڑھا گولکنڈہ ميں عزاداري اہل بيت کي روايت تہذيبي زندگي کا حصہ ہو گئي-
محمد قلي قطب شاہ‘ لباس شاہي اتار کرمحرم ميں ماتمي لباس پہنتا تھا ملک بھر ميں جام وسبو‘ چنگ و رباب کي مناہي ہو جاتي تھي-
محمد قلي قطب شاہ نے بصرف کثير بادشاہي عاشور خانہ تعمير کرائي- محمد قلي قطب شاہ اپنے نام کے ساتھ خادم اہل بيت (ع) کے الفاظ لکھنا لکھنوانا پسند کرتا تھا-
قطب شاہيہ پيشوائے سلطنت مير مومن تھا جو ايام محرم ميں شہدائے کربلا ع کے اسمائے گرامي پر علم استادہ کراتا تھا- غير مومن مذہب جعفريہ کي ترويج کے لئے ہمہ وقت درمے‘ قدمے سخنے کوشاں رہتا تھا محمد قلي قطب شاہ‘ کا بھتيجا اور داماد سلطان بنا عزاداري کو اس کے عہد ميں ترقي ہوئي-
محمد قلي قطب شاہ‘ عبد اللہ قطب شاہ‘ قطبي‘ احمد شريف‘ وجہي‘ غواصي‘ عابد‘ فائز‘ محب‘ لطيف‘ شاہي‘ گولکنڈہ والے مرثيہ گو شعرا تھے-
خواص و عوام کے لئے دکني مراثي خون جگر کي تحرير سمجھے سمجھائے جاتے تھے مگر دکني مراثي خالص فکروفن کے حوالے سے نہيں مصائب اہل بيت-ع- و اصحاب و امام-ع- کے پيش نظر انشاء کئے جاتے تھے شعري محاسن‘ نمود فن استادانہ کمال کا جسے بعدازاں لکھنو ميں عرض ہنر کہا جاتا تھا دکھني مرثيہ گو خيال نہيں کرتے تھے- مراثي ميں ہيئت غزل اپنائي گئي تھي اس لئے تسلسل مضامين موجود نہيں تھا- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
کربلا کا واقعہ
کربلا کي بلندي