اردو ادب ميں مرثيہ نگاري ( حصّہ ہفتم )
ادب ميں تخليق کا عمل پيچيدہ اور تہہ در تہہ محرکات اور ايسے گونا گوں عوامل کا نتيجہ ہوتا ہے جن کے انسلاکات کا تجزيہ آسان نہيں - ان کي نشاندہي تہذيبي اور سماجي تناظر کے حوالے سے بھي کي جا سکتي ہے اور اس انداز نظر کي معنويت سے بھي انکار ممکن نہيں کہ فنکار تاريخ کے ايک خاص عصري منظر نامے سے اپنے فن کا اسلوب ،نظرياتي وابستگي اور ادبي مسلک کي راہيں متعين کرتا ہے اور تاريخ کے ايک خاص لمحے ميں تخليق منصئہ شہود پر آتي ہے - اردو مرثيہ نگاروں کے ذہن اور ان کي سائيکي ميں ہندوستان کي خوشبو رچي بسي ہوئي تھي - گرد و پيش کي فضاء ،روايات ،قومي مزاج ،تاريخ و ثقافت کے تسلسل اور تہذيبي حسيت نے مرثيے کو جس کا رشتہ ابدي صداقتوں سے ہے مقاميت کے رنگ و آہنگ سے آراستہ کرديا ہے - ہر ادب کو تہذيبي نقش گري اور مقامي رجحانات سے توانائي ملتي ہے۔
دکن ميں مجلس عزاء کا علاۆ الدين بہمني کے عہد ميں اہتمام کيا جاتا تھا - يکے بعد ديگرے سلاطين بہمني کے دور ميں شيعہ رسومات ميں مجالس عزا کو ايک طرف مستحکم روايت کا مقام حاصل ہو گيا دوسري طرف ارباب بست وکشاد کے مقتدر طبقہ کا اہل بيت اطہار سے وابستگي کے باعث دکھني مرثيہ کے لئے فضا سازگار ہوئي-
دو نہروں کے درميان پر فضا مقام پر مسجد تعمير کي گئي اسد اللہ الغالب ‘ علي ابن ابي طالب (ع) کے لقب غالب کي رعايت سے نام مسجد غالب تجويز ہوا جس کے عدد بحساب ابجد 1033 ہوتے ہيں مسجد غالب ميں اتني ہي تعداد ميں چراغ دان بنوائے گئے تھے-
حسيني محل‘ عاشور خانہ تھا- جہاں محرم ميں مجالس عزا برپا ہوتي تھيں خليل اللہ خان کرماني کے مقبرہ ميں تخت کرماني لکڑي کا منبر موجود تھا جسے محرم ميں رسومات عزا کي ادائيگي کے سلسلہ ميں استعمال کيا جاتا تھا-
پہلے دکھني مرثيہ نگار آذري کا ذکر صاحب خزانہ عامرہ نے کيا ہے اشرف بياباني نے 9 ابواب ميں واقعہ کربلا بيان کيا‘ نظم مثنوي کا نام ”نوسرہار“ رکھا-
عادل شاہ مرثيہ گو شاعر تھا اس کي کليات ميں کئي ايک مراثي موجود ہيں ابراہيم عادل شاہ مرثيہ کہتا تھا اسي کے عہد ميں روضتہ الشہداء کا ترجمہ اردو ميں ہوا- علي عادل شاہ ثاني نے مرثيہ گوئي ميں نام پايا- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
کربلا کي بلندي
کربلا کا واقعہ