اردو ادب ميں مرثيہ نگاري ( حصّہ سوّم )
اردو ميں جب مرثيہ نگاري کي ابتداء ہوئي تو اس کے مقاصد بھي تھے - اردو زبان ميں مرثيہ نگاري کا ايک مقصد ديني اخلاقي اقدار کا فروغ تھا - ہم اس کو مختصراً يوں بھي کہہ سکتے ہيں کہ مرثيہ اصل ميں حق و باطل سے آگاہي کي صنف ہے جس کا موضوع امام حسين عليہ السلام اور يزيد کے درميان صحرائے کربلا ميں ہونے والي جنگ ہے، جس ميں امام حسين عليہ السلام کي شہادت کے بعد بظاہر يزيد کو فتح ہوئي ليکن حقيقتاً حضرت امام حسين عليہ السلام کو فتح دائمي نصيب ہوئي اور يوں ہميشہ کے ليے حق و باطل کا فرق واضح ہو گيا-
يہ تو ممکن ہے کہ کوئي اديب بيک وقت نثر نگار بھي ہو اور شاعر بھي، ليکن نثر نگاري اور شاعري کے نہ صرف علمي و فني تقاضے بلکہ ارتقاء و فروغ کي تاريخ بھي ايک دوسرے سے جدا اور مختلف ہے-
مير انيس پانچويں پشت ميں اس فن سے مربوط تھے، اُن کے بعد تين پشتوں تک اُن کا خاندان مرثيہ نگاري سے ہي وابستہ رہا- ہندوستان ميں اردو مرثيے کے آغاز کے سلسلے ميں اگرچہ محقِقين متفق نہيں ہيں ليکن پھر بھي صاحبان نظر و فکر کا ايک بڑا حلقہ اس بات پر زور ديتا چلا آرہا ہے کہ اردو مرثيے کي تاريخ چار سو سال پر محيط ہے اور ہندوستان ميں اردو مرثيے کا آغاز دکن سے ہوا ہے- محقيقين کے ايک گروہ نے سلطنت گولکنڈہ کے حکمران محمد قلي قطب شاہ کو اردو کا پہلا مرثيہ گو شاعر تسليم کيا ہے، جس کے بعد مرثيہ گوئي کي يہ لہر رياست بيجاپور ميں داخل ہوئي اور بيجاپور کے "قطب شاہي" اور "عادل شاہي" حکمرانوں نے اس فن کي سرپرستي کرکے اسے مقبول ِ عام بنانے ميں قابل قدر کردار ادا کيا-
بعد ازاں جب 1687ء ميں دکن پر مغلوں کا قبضہ ہوگيا تو پھر 1722ء تک مرثيہ مغل حکمرانوں کي زير سرپرستي نشوونما پاتا رہا اور مرثيہ گو حضرات اس دوران غزل اور قصيدے کي شکل ميں اپنے فنون کا اظہار کرتے رہے- البتہ يتيم نامي ايک شاعر نے اس دور ميں اپنے ہم عصر شعراء سے انفراديت اختيار کرتے ہوئے مربع کي شکل ميں مرثيے لکھ کر ايک نئي پيش رفت کي بنياد ڈالي- وقت کے ساتھ ساتھ يہ فن دکن اور بيجاپور سے پھيلتا ہوا ارکاٹ، سدہوٹ اور ميسور تک جا پہنچا- بعد ميں جب مغلوں کا اقتدار دکن پر قائم ہوا تو مرثيہ نگاري ميں کئي اخلاقي اور علمي قدريں بھي شامل ہوتي گئيں- اس دوران مثلت، مربع، مخمس اور مسدس کي شکل ميں مرثيے لکھے گئے-( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
کربلا کا واقعہ
زيارت کا عظيم مقام