واقعہ عاشورہ کے بعد چاليسويں دن کا تاريخي لحاظ سے تجزيہ
شہيدوں کے سردار حضرت امام حسين بن علي عيلہ السلام کي شہادت کے چاليسويں کي قدر و منزلت آنحضرت کے شيعوں کے نزديک بہت ہي خاص اہميت کي حامل ہے - بہت سے صاحب فکر اور شيعہ و سني مۆرخين کے مطابق ، اس عظيم واقعے کي تاريخي بنياد ، واقعہ عاشورہ کے چاليس دن گزرنے کے بعد اہل بيت کا کربلا ميں داخل ہونا (سال 61 هجرى) اور شہداء کے سروں اور خاص طور پر حضرت امام سجاد عليہ السلام کے توسط سے حضرت امام حسين عليہ السلام کے سر مبارک کي ان کے پيکر مقدس کے پاس تدفين کي خاص اہميت ہے - بہت سے شيعہ و سني فقہ کے مشہور علماء و مۆرخين نے اس بات کي تائيد کي ہے کہ جن ميں سے بعض کي طرف ہم مختصر طور پر يہاں اشارہ کريں گے -
1- ابو مخنف - لوط بن يحيى - حضرت امام حسين (ع) کے ہم عصر (1)
2- شيخ صدوق، (سال وفات 381 ق )
" امام سجاد عليہ السلام اہل بيت (ع) اور شہداء کے پاک سروں کو لے کر دمشق سے باہر آۓ اور مقدّس سروں کو کربلا ميں دفن کيا - " (2 )
3- اسفرائنى (سال وفات 406ق) مذھب شافعي کے ايک اعلي عالم
" کہتے ہيں کہ اہل بيت (ع) بيس صفر کو کربلا ميں داخل ہوۓ اور جابر کے ساتھ ملاقات کي - "
4- علم الهدى سيد مرتضى (سال وفات 436ق.) لکھتے ہيں کہ :
" درحقيقت سر مطہر امام حسين عليہ السلام کو کربلا ميں ان کے پيکر مقدس کے پاس لايا گيا -" (3)
5- ابو ريحان بيرونى، مشہور محقق اور رياضي دان(سال وفات 440ق) نے اپني معروف کتاب «الآثار الباقية» ميں اس مسئلے کي طرف اشارہ کيا ہے -
6- شيخ طوسى (سال وفات 460ق) حضرت امام حسين عليہ السلام کے چاليسويں پر ان کي زيارت کي سنّت ہونے کي وجہ صرف کربلا ميں امام حسين عليہ السلام اور دوسرے شہداء کے سروں کي تدفين کي انجام دہي کو قرار ديتے ہيں - (5)
اھل سنّت کے ايک معروف عالم دين سبط ابن الجوزى(سال وفات 654ق) يوں بيان کرتے ہيں : " مشہور روايات کے مطابق ، حضرت امام حسين عليہ السلام کا سر مبارک کربلا ميں واپس لايا گيا اور ان کے جسد مقدّس کے ساتھ دفن ہوا -" (6 )( جاری ہے )
شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
کربلا کا واقعہ
کربلا منزل بہ منزل