زيارت کا عظيم مقام
کربلا منزل بہ منزل (حصہ اول)
کربلا کا واقعہ (حصہ دوم)
کربلا کي بلندي (حصہ سوم)
يہاں رات بھر بجلي کے قمقمے جگ مگاتے رہتے ہيں اور روضہ بقعہ نور بنا رہتا ہے پہلے جگہ جگہ برقي پنکھے لگے ہوئے تھے اب ان کو ہٹا کر پوري عمارت کو ايرکنڈيشن کر ديا گيا ہے قيمتي جواہرات اور نادر اشياءجو نذر ميں چڑھائي گئي ہيں ان کو موقع بہ موقع آويزاں کيا گيا ہے جس سے رونق دو بالا ہوگئي ہے ضريح مبارک چاندي کي ہے اس کے ارد گرد سنگ مرمر کا فرش ہے جس پر قيمتي و دبيز قالين بچھے ہوئے ہيں جس کے بننے ميں فن کا کمال رکھا گيا ہے زائرين کا سخت ہجوم يہاں شب و روز رہتا ہے سب ايک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہيں اور شانے سے شانہ چھلتا ہے-
ليکن يہ سب کچھ بہت دنوں بعد ہوا ابتدا ميں تو بني اسد کي بنائي ہوئي چند کچي قبريں ہي تھيں اور پہلے زائر صحابي رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم جناب جابر ابن عبدا للہ انصاري اور ان کے بعض ساتھي و غلام تھے - شہادت امام حسين عليہ السلام کے کئي سال بعد امير مختار نے ان قبروں کو پختہ کرايا اور سائبان ڈلوائے مگر بني مروان نے زيارت پر پابندي عائد کر دي - عباسيوں کے زمانہ ميں پھر روضہ کي آبادي شروع ہوگئي اور زائرين کربلا جانے لگے يہاں تک کہ متوکل ملعون نے تمام روضوں کو تباہ و برباد اور مسمار کر ديا اور زيارت امام حسين عليہ لالسلام کو لائق گردن زني جرم قرار دے ديا اس کے قتل کے بعد گو کہ يہ بات نہيں رہي مگر کچھ ايسي شرطيں لگا دي گئيں کہ اسے عوام نہيں پورا کر سکتے تھے اور سالہا سال مجبوري اور بے چارگي کا يہ دور چلتارہا -
اس مزار مقدس کا موجودہ عظيم الشان ہيکل آل بويہ کي عقيدت کا نتيجہ ہے اور يہ حقيقت ہے کہ ان ہي کے زمانے سے کربلا کي رونق و مستقل آمدني بڑھنے لگي اور چوتھي صدي ہجري سے لے کر ابھي چند سال قبل تک اس ميں اضافہ و توسيع ہي ہوتي رہي -آٹھويں صدي ميں خدا بندہ شاہ ايران نے پھر دسويں صدي ميں شاہ اسماعيل صفوي اور اس کے بعد مختلف سلاطين ايران و ہندوستان و ترک کي عالي ہمتي اور خلوص و محبت کے زير اثر کربلا، کاظمين، سامرہ، روضہ حضرت عباس عليہ السلام و حضرت حر عليہ السلام و ديگر شہدا کے روضے تعمير ہوئے جن ميں سے ہر ايک اپني جگہ خصوصيت کا حامل ہے - ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
عزاداري ميں جزع اور بے چيني
جزع اور بےچيني کے مصاديق