• صارفین کی تعداد :
  • 2937
  • 11/24/2013
  • تاريخ :

سر بر محمل زدن حضرت زينب 3

سر بر محمل زدن حضرت زينب 3

سر بر محمل زدن حضرت زينب 1

سر بر محمل زدن حضرت زينب 2

 

 

سۆال:

کيا سر کو محمل پر مارنا امام حسين (ع) کي وصيت کے منافي نہ تھي؟

 

جواب:

امام سجاد عليہ‏السلام فرماتے ہيں: شب عاشور، وہي شب جس کے دوسرے دن ميرے والد ماجد شہيد ہوئے، ميں خيمے ميں تھا اور پھوپھي زينب ميري تيمارداري ميں مصروف تھيں--- امام حسين (ع) نے ميري پھوپھي کو دلاسہ ديا- امام سجاد (ع) فرماتے ہيں: امام حسين عليہ‏السلام نے ثاني زہراء (س) کي طرف ديکھا اور فرمايا: ايسا نہ ہو کہ شيطان صبر اور بردباري کو آپ سے سلب کردے--- بہن زينب! ميں آپ کو قسم ديتا ہوں اور آپ سے چاہتا ہوں کہ ميري قسم کو نظر انداز نہ کريں؛ جب ميں شہيد ہوجاۆں ميرے لئے گريبان چاک مت کرنا، اپني چہرے کو مت کھرچنا، اپني صدا نوحے اور واويلا کے عنوان سے بلند نہ کرنا- اس کے بعد بابا، پھوپھي کو لے کر ميرے پاس آئے اور انہيں ميرے قريب بٹھايا اور خود اصحاب و انصار کے پاس تشريف لے گئے--- (1)

فطري امر ہے کہ عقيلہ بني ہاشم جيسي بے مثل شخصيت امام عالي مقام کي توہيں و اہانت کا تصور تک نہيں کرسکتيں خواہ يہ توہيں ادبي صنائع و بدائع کے عنوان سے ہي کيوں نہ ہو-

اور چوتھي بات يہ ہے کہ اگر فرض کريں کہ يہ داستان درست ہے اور حضرت زينب (س) نے اس بحراني کيفيت ميں - جبکہ آپ (س) اپنے بھائي کا سر مبارک پہلي مرتبہ نوک سناں پر ديکھ رہي تھيں - سيدہ (س) نے اپنا سر محمل پر مارا ہو، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سيدہ (س) شديد غم و الم ميں مبتلا تھيں اور اس سے يہ ثابت نہيں ہوتا کہ آپ (س) نے اپنا سر توڑنے کي نيت سے محمل پر مارا ہو- اور پھر وہ ايک نہايت بحراني کيفيت تھي اور عام حالت ميں بدن پر زخم لگانے کے جواز کي دليل نہيں ہے- ايسي صورت ميں ہم کہہ سکتے ہيں کہ اگر کسي پر ايسي حالت طاري ہوئي اور اس نے شدت جذبات ميں اپنے آپ کو زخمي کرديا تو اس پر کوئي حرج نہيں ہے (البتہ ايسا نہ ہو کہ پہلے سے اس نے اپنے قريب زخمي کردينے والا آلہ تيار کرکے رکھا ہو اور پہلے سے اس کے لئے منصوبہ بندي کي ہو) اس بات کي دليل يہ ہے کہ سيدہ زينب (س) اور حرم اہل بيت (ع) کي ديگر سيدانيوں نے امام (ع) کي شہادت کي برسي کے موقع پر کبھي بھي ايسا عمل نہيں کيا اور تاريخ و روايات ميں اس کي کوئي مثال نہيں ملتي- اس کے علاوہ امام سجاد (ع) اور ديگر امامان ہدايت عليہم السلام نے امام حسين (ع) کي عزاداري ميں خدش اور زخم وارد کرنے کا کبھي بھي کوئي حکم نہيں ديا ہے- حالانکہ تمام امامان ہدايت نے عزاداري اور سوگواري اور گريہ اور ندبہ کا اپنے زمانے ميں بھرپور اہتمام کيا ہے-

 

حوالہ جات:

1- الکامل في التاريخ، ج4، ص59؛ البداية والنهاية، ج 8، ص 177؛ تاريخ اليعقوبي، ج2، ص244؛ بحارالانوار، ج 45، ص2؛ انساب الاشراف، ج 3، ص 185، چاپ زکار، ج 3، ص 392؛ المنتظم في التاريخ الملوک والامم، ج 5، ص 338؛ تاريخ الطبري، ج5، ص420-

 

ترجمہ : فرحت حسین مہدوی


متعلقہ تحریریں:

واقعہ کربلا کے حقائق

کتاب الکافي کا مختصر تعارف