قبور سے تبرک کے بارے ميں سني علماء کي آراء 1
يہاں يہ سوال پيش آسکتا ہے کہ کيا تبرک جوئي کي سنت جو رسول اللہ (ص) کے صحابہ کي سيرت ميں واضح طور پر جاري تھي، اہل سنت کے علماء کے نزديک بھي قابل قبول ہے يا نہيں؟ کيا علمائے اہل سنت نے اس سنت کي حدود ميں رائے بھي دي ہے يا پھر صحابہ کي روش کو ہي صحيح سمجھتے ہيں اور ان ہي کے عمل کي حدود ميں اس سنت کے قائل ہيں؟ ا
ان سوالات کے جواب ميں کہنا چاہئے کہ: اس سنت کو رد کرنے اور تبرک و توسل کے خلاف لڑنے والے وہابيوں کے سوا اہل سنت کے چار فقہي پيشواۆں اور اسلامي مذاہب کے کسي بھي عالم نے نہ صرف اس سنت کي مخالفت نہيں کي ہے بلکہ اپنے فعل و قول اور تحريروں ميں اس سنت کي تائيد کرتے آئے ہيں؛ ذيل ميں چند نمونے ملاحظہ ہوں:
1- حنابلہ کے امام احمد بن حنبل کے بيٹے عبداللہ کا کہنا ہے: ميں نے اپنے والد سے پوچھا کہ رسول اللہ (ص) کے منبر کو مسّ کرنا يا تبرک (برکت کے حصول) کي نيت سے اس کو مس کرنے، اور اس کو چومنے اور قبر شريف کو چومنے اور مس کرنے اور اس سے متبرک ہونے يا ثواب کي نيت سے اس کو چومنے کا حکم کيا ہے؟" تو انھوں نے جواب ديا: ان اعمال ميں کوئي حرج نہيں ہے"- (1)
2- رملي شافعي کہتے ہيں: "قبر نبي (ص) يا علماء اور اولياء کي قبور سے سے تبرّک جائز ہے اور ان کو چومنے ميں کوئي حرج نہيں ہے"- (2)
3- محب الدين طبري شافعي کہتے ہيں: "قبر کو چومنا اور اس پر ہاتھ رکھنا جائز ہے اور علماء اور صالحين کي سيرت اور عمل اسي سنت پر استوار ہے"- (3)
حوالہ جات:
1- الجامع في العلل و معرفة الرجال، ج2، ص32-
2- کنز المطالب، ص219 مناقب خوارزمى، ص 252-
3- وفاء الوفا، ج1، ص69-
متعلقہ تحریریں:
دنيا ميں اسلام کي لازوال قوت
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي