• صارفین کی تعداد :
  • 2649
  • 11/12/2013
  • تاريخ :

عاشورہ ، حريت اور آزادي کا پيغام

عاشورہ ، حریت اور آزادی کا پیغام

غاشورہ درس حریت و آزادی(حصّہ اول)

 

بيٹي: امي آپ نے امام حسين عليہ السلام کي وصيت کي جانب اشارہ کيا تھا- ذرا تفصيل سے بتائيے اس ميں آپ نے اور کيا لکھا تھا؟

ماں: امام حسين عليہ السلام نے اپني اس وصيت ميں فرمايا کہ يہ وصيت حسين ابن علي کي طرف سے بھائي محمد حنفيہ کے نام- حسين توحيد و يگانگت ِپروردگار کي اور اس بات کي گواہي ديتا ہے کہ خداد کا کوئي شريک نہيں اور يہ کہ محمد خدا کے عبد اور اس کے رسول ہيں اور آپ آئين حق (اسلام) خدا کي طرف سے لوگوں کے لئے لائے ہيں اور يہ کہ بہشت و دوزخ حق ہے- روزِ جزا بغير کسي شک کے وقوع پذير ہوگا اور خداوند عالم تمام انسانوں کو اس دن دوبارہ زندہ کرے گا“- امام نے اس وصيت نامے ميں توحيد و نبوت و معاد کے بارے ميں اپنا عقيدہ بيان کرنے کے بعد اپنے سفر کے مقاصد اس طرح بيان فرمائے:

”‌ميں خود خواہي يا سير و تفريح کے لئے مدينہ سے نہيں نکل رہا اور نہ ہي ميرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ ميرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ہے- اور ميں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کي اصلاح کروں- اپنے جد امجد رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے قوانين اور ان کي سنتوں کو زندہ کروں اور اپنے پدر بزرگوار علي کا راستہ اور ان کا طرز عمل اپناۆں- پس جو شخص يہ حقيقت قبول کرتا ہے (اور ميري پيروي کرتا ہے) اس نے گويا راہ خداد کو قبول کيا اور جو شخص بھي ميرے اس ہدف اور ميري اس آرزو کو رد کرتا ہے (ميري پيروي نہيں کرتا) تو ميں صبر و استقامت کے ساتھ اپنا راستہ اختيار رکھوں گا يہاں تک کہ خداوند عالم ميرے اور ان کے درميان فيصلہ کرے اور وہ بہترين فيصلہ کرنے والا اور حاکم مطلق ہے- بھائي يہ ميري وصيت آپ کے لئے ہے اور خداوند تعاليٰ سے توفيق کا طلبگار ہوں اور اسي پر توکل کرتا ہوں اور اسي کي طرف ميري بازگشت ہے“

بيٹي: امي امام حسين عليہ السلام کو جب اپني جان کا خوف تھا تو کيا وہ چھپ کر مدينہ سے مکہ کي طرف گئے؟

ماں : نہيں بيٹي امام حسين عليہ السلام نے ايسا نہيں کيا بلکہ وہ اٹھائيس رجب المرجب کو اپنے اہل و عيال اور خاندان والوں کے ہمراہ مکہ کي سمت روانہ ہوئے- مدينہ سے روانگي کے وقت آپ کي زبان مبارک پر قرآن مجيد کے سورہ قصص کي اکيسويں آيت تھي جو حضرت موسي عليہ السلام کي مصر سے روانگي اور فرعونيوں سے ان کے مقابلے کي تياري کے بارے ميں نازل ہوئي ہے-

امام حسين عليہ السلام نے عبداللہ ابن زبير کي طرح چھپ کر سفر کرنے کي بجائے وہي راستہ اختيار کيا جسے عام طور پر مسافر اور کارواں، مکہ جانے کے لئے استعمال کرتے تھے-

امام عليہ السلام کے ايک ساتھي نے مشورہ ديا کہ مناسب يہ ہے کہ آپ بھي عبداللہ ابن زبير کي طرح کسي غير معروف اور پہاڑي راستے کا انتخاب کيجئے، تاکہ اگر يزيد کے کارندوں ميں سے کچھ لوگ پيچھا کرکے آپ کو نقصان پہنچانا چاہيں تو اپنے ارادوں ميں ناکام رہيں- اس تجويز کے جواب ميں امام عليہ السلام نے فرمايا: نہيں، خدا کي قسم ميں کسي بھي صورت ميں عام راستے کو چھوڑ کر غير معروف راستوں پر سفر نہيں کروں گا، يہاں تک کہ جو مشيت الہٰي ہے وہ ہو جائے-

بيٹي : امام حسين عليہ السلام کب مکہ پہنچے؟

ماں: امام حسين عليہ السلام مدينہ سے مکہ تک کا فاصلہ پانچ دن ميں طے کرنے کے بعد تين شعبان کو مکہ معظمہ پہنچے- اس مقدس شہر ميں داخل ہوتے ہوئے آپ سورہ قصص کي بائيسويں آيۃ کي تلاوت فرما رہے تھے: ”‌اور جب موسي نے مديَن کا رخ کيا تو کہا کہ عنقريب پروردگار مجھے سيدھے راستے کي ہدايت کردے گا-

امام عليہ السلام قرآن کريم کي ان دو آيتوں کو پانچ دن کے فاصلے سے تلاوت کر کے اس نکتے کي طرف توجہ دلانا چاہتے تھے کہ جس طرح حضرت موسي کا اپنا آبائي وطن ترک کرنا اور ايک انجانے شہر ميں پناہ لينا، بے مقصد نہ تھا، اسي طرح آپ  کا مدينہ منورہ چھوڑنا بھي ايک بڑے مقصد کے لئے ہے اور يہ ايک ايسا عظيم الشان مقصد ہے جس کے حصول کي خواہش ہر خداپرست انسان کے دل ميں مچلتي ہے- اسي طرح مکہ ميں داخل ہونا بھي اسي عظيم الشان مقصد کے تحت ہے جس تک رسائي پروردگار کي خاص ہدايت اور اس کي خاص عنايات کے بغير ممکن نہيں ہے- (جاری ہے)


متعلقہ تحریریں:

کربلا حيات بخش کيوں

 کربلا حيات بخش کيوں ہے ؟