عاشورہ درس حريت وآزادي
دنيا ميں ہر روز سينکڑوں واقعات رونما ہوتے ہيں اور زندگي ان مختلف حادثات و واقعات کے باوجود جاري رہتي ہے ليکن کچھ واقعات ايسے ہوتے ہيں جو صدياں گزر جانے کے باوجود انساني ذہنوں سے محو نہيں ہوتے بلکہ تاريخ کے صفحات ميں درخشاں باب کي حيثيت سے باقي رہتے ہيں- نہ صرف باقي رہتے ہيں بلکہ ايک دنيا کو اپنا گرويدہ بنا ليتے ہيں- واقعۂ کربلا ايک ايسا ہي واقعہ ہے کہ جو دس محرم سنہ اکسٹھ ہجري کو کربلا کي سرزمين پر پيش آيا- يہ واقعہ نہ صرف اپني نوعيت کا منفرد واقعہ ہے بلکہ اس نے اپنے وقوع پذير ہونے سے لے کر اب تک ايک درخشاں آفتاب کي مانند ظلمت و تاريکي ميں گھري ہوئي دنيا کو ہدايت کا راستہ دکھايا ہے- آج بھي حقيقت کے تشنہ افراد واقعہ کربلا کے بارے ميں زيادہ سے زيادہ جاننا چاہتے ہيں- ايسے افراد کي بہتر رہنمائي اور نوجوان نسل کو بہتر طريقے سے آشنا کرانے کے ليے ہم نے محرم الحرام کے خصوصي پروگرام ترتيب ديے ہيں- ان پروگراموں ميں آپ ہر روز پاکستان ہندوستان اور کشمير سے تعلق رکھنے والے کسي ايک عالم اہل سنت کے امام حسين عليہ السلام اور واقعۂ کربلا کے بارے ميں خيالات سنيں گے- جبکہ ابتدائي چند پروگراموں ميں نوجوان نسل کو آسان انداز سے واقعہ کربلا اور اس کے حقائق سے آشنا کرانے کے ليے اسے روايت کي صورت ميں بيان کريں گے- ايک ماں اپني بيٹي کو سادہ اور سليس انداز ميں واقعہ کربلا، اس کے اسباب و عوامل اور محرکات بتا رہي ہے-
بيٹي: امي جب محرم الحرام کا مہينہ شروع ہوتا ہے تو عزاداري کا سلسلہ کيوں شروع ہو جاتا ہے؟
ماں: بيٹي سنہ اکسٹھ ہجري کو عاشورا کے دن کربلا کے ميدان ميں تاريخ بشريت ميں ايک ايسا واقعہ رونما ہوا جس کو سمجھنے اور اس کي حقيقت تک پہنچنے کے ليے انسان کو بہت محنت کي ضرورت ہے- يہ بھي مشاہدے کي بات ہے کہ اس وقت بہت سے لوگوں کو کربلا کا يہ پيغام يا تو صحيح طريقے سے پہنچايا ہي نہيں گيا يا جان بوجھ کر انہوں نے اس پيغام کو سمجھنے کي کوشش نہيں کي- محرم الحرام قمري تاريخ کا پہلا مہينہ ہے اور يہ حضرت امام حسين عليہ السلام سے منسوب ہے- دس محرم کو آپ کے عزيزوں اور ساتھيوں سميت کربلا کے ميدان بھوکا اور پياسا شہيد کر ديا گيا اور آپ کے اہل خانہ کو اسير کر کے کوفہ و شام کي گليوں اور بازاروں ميں پھرايا گيا- لہذا محرم کے ايام سوگ کے ايام ہيں- سوگ و عزا صرف مجلس منبر يا خاص محفل تک محدود نہيں ہے بلکہ انسان کو چاہيے چوبيس گھنٹے ان ايام ميں اپنے آپ کو سوگوار رکھے- اپنے وجود، بدن، گھر اور اطراف ميں حالت سوگ و عزا طاري کرے-
بيٹي: امي امام حسين عليہ السلام نے اپني کربلا کي تحريک کب شروع کي؟
ماں: رسولِ خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي رحلت کے ساتھ ہي اہلبيتِ رسالت پر مخلتف قسم کي مشکلات اور مصيبتيں آنے لگيں اور نوبت يہاں تک پہنچ گئي کہ ماہ رجب المرجب سنہ 60 ہجري قمري ميں حاکم شام معاويہ ابن ابي سفيان کے مرنے کے بعد اس کے بيٹے يزيد ابن معاويہ نے بر سر اقتدار آتے ہي نواسۂ رسول حضرت امام حسين عليہ السلام سے بيعت کا مطالبہ کيا- يزيد نے مسند خلافت پر براجمان ہونے کے فورا بعد واليِ مدينہ وليد بن عُتبہ بن ابي سفيان کو ايک خط لکھا کہ کسي تاخير کے بغير حسين (عليہ السلام) سے بيعت لے لو اور اگر وہ بيعت نہ کريں تو سرتن سے جدا کرکے بھيج دو- حضرت امام حسين عليہ السلام نے بيعت کے اس مطالبے کو پائے حقارت سے ٹھکرا ديا اور فرمايا کہ مجھ جيسا يزيد جيسے کي بيعت نہيں کر سکتا-
حضرت امام حسين عليہ السلام نے جب ايسے حالات ديکھے تو مدينہ کو ترک کرنے کا فيصلہ کيا-
امام حسين عليہ السلام نے اپنے بھائي محمد حنفيہ سے اس سلسلے ميں فرمايا کہ مدينہ کے حالات کو ديکھتے ہوئے ميں مکہ جانا چاہتا ہوں؛ پھر قلم و کاغذ طلب کيا اور اپنا وصيت نامہ لکھا-
بيٹي: امام حسين عليہ السلام نے اس وصيت ميں کيا لکھا تھا؟
ماں: اس وصيت ميں آپ نے خدا کي حمد و ثنا کے بعد اپنے قيام کے اسباب بيان کيے تھے- آپ نے فرمايا:
ميں نے تکبر و خود خواہي يا فساد و ظلم پيدا کرنے کے ليے قيام نہيں کيا بلکہ ميں نے قيام کيا ہے تاکہ اپنے جد بزرگوار صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي امت کي اصطلاح کروں اور اپنے والد گرامي علي ابن ابيطالب عليہ السلام کي سيرت پر چلوں- (جاری ہے)
متعلقہ تحریریں:
حضرت حجر ابن عدي کي زندگي کے حالات
رسول اللہ (ص) اور صالحين سے تبرک و توسل