کيا چار خواتين کا انتخاب عورت کي توہين نہيں ہے؟ 2
کيا چار خواتين کا انتخاب عورت کي توہين نہيں ہے؟ 1 (حصہ اول)
دوسرا نکتہ يہ ہے کہ يہ خواتين جن کمالات پر فائز ہوئي ہيں اور جو ممتاز خصوصيات حاصل کي ہيں، ايسي نہيں ہيں جو دوسري خواتين کے لئے ناقابل حصول ہوں بلکہ دوسري عورتيں بھي ان صفات و خصوصيات کو حاصل کرکے کمال کے اعلي درجات پر فائز ہوسکتي ہيں؛ جيسا کہ خداوند متعال نے آسيہ بنت مزاحم کے بارے ميں فرمايا ہے:
{وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ}- (4)؛
"خداوند متعال نے اہل ايمان کے لئے زوجۂ فرعون کي مثال دي ہے؛ جس وقت اس نے کہا: پروردگارا! تو جنت ميں ايک گھر ميرے لئے بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کردار سے نجات دے اور مجھے نجات دے ظالموں سے"-
آيات کريمہ ميں غور و تدبر سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چيز نے مريم کو کمال حقيقي تک پہنچايا: پاکدامني اور حق تعالي کي اطاعت و فرمانبرداري تھي اور جس چيز نے آسيہ بنت مزاحم (زوجۂ فرعون) کو کمال تک پہنچايا وہ توحيد و معاد اور جنت و دوزخ اور ظالموں سے بيزاري، سے عبارت تھي؛ اور يہ کمالات ہر عورت کے لئے دستياب ہيں؛ چنانچہ عورتيں تمام عورتيں ان چارخواتين سے نمونۂ عمل لے کر ـ جو حد اعلائے کمال تک پہنچنے والي خواتين کا مصداق ہيں ـ حقيقي کمال تک پہنچ سکتي ہے-
آخري نکتہ يہ ہے کہ ايسي خواتين بھي ہيں جو کمال تک پہنچي ہيں اور معصومين (عليہم السلام) نے بھي انہيں لائق توجہ سمجھا ہے؛ منجملہ: امّ المۆمنين امّ سلمہ (س)، زينب کبري (س)، اسلام کي اولين شہيدہ سميہ (زوجہ اولين شہيد اسلام ياسر اور عمار ياسر کي والدہ)، گو کہ اس روايت ميں ان کي طرف اشارہ نہيں ہوا ہے، کيونکہ کمال اور برگزيدگي کے مختلف درجات ہيں- (5)
حوالہ جات:
4- سورہ تحريم (66)، آيت 11-
5- رجوع کريں: جوادي آملي، زن در آئينه جلال و جمال، صص 142 به بعد-
منبع: شخصيت و حقوق زن؛ سيد ابراهيم حسيني؛ نهاد نمايندگي مقام معظم رهبري در دانشگاه ها
ترجمہ : فرحت حسین مہدوی
متعلقہ تحریریں:
کيا عورت، مرد کا رشتہ مانگ سکتي ہے؟ 2
کيا إِنَّمَا الْمُۆْمِنُونَ ميں خواتين بھي شامل ہيں 2