کيا إِنَّمَا الْمُۆْمِنُونَ ميں خواتين بھي شامل ہيں 1
قرآن مجيد ميں خداوند متعال کا ارشاد ہے:
{إِنَّمَا الْمُۆْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} (1)
اہل ايمان آپس ميں بھائي بھائي ہي تو ہيں تو اپنے دو بھائيوں ميں صلح کراۆ اور اللہ سے ڈرو، شايد اس کي رحمت تمہارے شامل حال ہو-
ميں خواتين بھي شامل ہيں؟
اس آيت کريمہ اور اس سے قبل کي آيت کي شان نزول کا تعلق اوس و خزرج نامي قبائل کے درميان اختلاف سے ہے (جو مدينہ کے دو مشہور قبائل تھے)- اس اختلاف کي وجہ سے دو قبائل کے بعض افراد آپس ميں جھگڑ پڑے اور ان کے درميان نزاع پھوٹ پڑا؛ چنانچہ يہ آيت ان کے درميان جھگڑے کے خاتمے کے نيز ـ ہر زمانے اور ہر سرزمين کے لئے ـ ايک کلي اور عمومي قانون کے عنوان سے نازل ہوئي ہے- يہ حتي حنگ اور قتال تک بھي محدود نہيں ہے بلکہ مۆمنين کے درميان لفظي بحث و تکرار اور نزاع بھي اس ميں شامل ہيں- چنانچہ آيت کي شان نزول کو مدنظر رکھ کر مذکورہ بالا سوال کا جواب يوں ديکھا جاسکتا ہے:
1- جب ہم ديکھتے ہيں کہ "دو قبيلوں کے درميان جنگ اور اختلاف رونما ہوا ہے"، اس کے معني يہ نہيں ہيں کہ يہ جھگڑا اور اختلاف صرف مردوں ميں واقع ہوا ہے بلکہ اس ميں دو قبيلوں کے تمام افراد ـ خواہ وہ مرد يوں خواہ عورتيں ہوں خواہ بچے ہوں ـ اس ميں شامل ہيں- چنانچہ آيت کي تعبير قبيلے کے تمام افراد اور وسيع تر سطح پر تمام مۆمنين (چاہے مرد ہوں چاہے خواتين ہوں) کے شامل حال ہے- البتہ ظاہر ہے کہ جنگ مردوں کے درميان انجام پاتي ہے اور عورتيں اور بچے عملي طور پر ميدان جنگ سے دور ہيں؛ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ: اس آيت کا خطاب اس لحاظ سے مردوں سے ہے؛ ليکن اس آيت ميں وہ لوگ بھي شامل ہوتے ہيں جو ميدان کارزار کے کناروں ميں کردار ادا کرتے ہيں اور يہ بات اس آيت پر حکمفرما روحِ سے سمجھي جاسکتي ہے-
حوالہ جات:
1. (سورہ حجرات (49) آيت 10).
2- سورہ زخرف (43) آيت 67-
ترجمہ : فرحت حسین مہدوی
متعلقہ تحریریں:
معاشرے ميں عورت کي صلاحيت
خانداني اقدار کي تباہي