لڑکيوں کي جنسي، عقلي اور فکري بلوغت
اسلامي کي نمايان ترين خصوصيت يہ ہے کہ اس نے حتي ايک احتياج اور جبلت کو بھي بےجواب نہيں چھوڑا ہے اور انہيں پورا کرنے کے لئے بہترين امکانات فراہم کئے ہيں- اسلام کي سفارش ہے کہ جب لڑکا اور لڑکي جنسي رجحان محسوس کرتے ہيں اور جنس مخالف سے ملاپ کے قابل ہوجاتے ہيں، ان کے اس رجحان کو معقول انداز ميں برآوردہ کرنا چاہئے-
رسول اللہ (ص) نے ايک خوبصورت تشبيہ کے ضمن ميں بيان فرماتے ہيں:
"دوشيزائيں (ابکار) درخت پر لگے پھل کي مانند ہيں- جنہيں پکتے ہي اتارنا چاہئے ورنہ سورج کي حرارت اور آندھياں انہيں تباہ کرديتي ہيں- جب دوشيزائيں ادراک کريں اس حالت کو جس کو عورتيں محسوس کرتي ہيں، تو ان کي دوا شوہر کے سوا، کچھ بھي نہيں ہے- بصورت ديگر وہ خراب اور آلودہ ہوسکتي ہيں کيونکہ وہ بھي انسان ہيں"- (1)
مذکورہ حديث ميں عورت کے شادي کے لئے کسي خاص عمر کا تعين نہيں ہوا ہے اس وقت کو بہترين موقع قرار ديا گيا ہے جب لڑکي زنانہ جنسي رجحانات کا ادراک کرے- البتہ اسلام ميں گھرانوں اور تعليمي و ثقافتي اداروں کو متعدد ہدايات کي گئي ہيں کہ لڑکيوں اور لڑکوں کي زودرس بلوغت کا انسداد کريں- ماں باپ سے کہا گيا ہے کہ مقاربت کے وقت حتي کہ ان کے سانس لينے کي آواز سوئے ہوئے بچوں تک نہ پہنچنے پائے- بچيوں کو چھ سال کے بعد نہ چوما جائے حتي کہ باپ اپني بچيوں کے ہونٹوں اور گردن کا بوسہ نہ لے اور چھ سال سے اوپر کے بچے ايک لحاف کے نيچے نہ سوئيں اور لڑکياں گھڑسواري سے پرہيز کريں"- (2) ليکن جب جنسي بلوغت حاصل ہوجائے تو اس کا ضروري اور مناسب جواب ديا جائے اور وہ جواب ازدواجي رشتہ ہے-
اب مسئلہ يہ ہے کہ آج کي لڑکياں جنسي بلوغت کے مرحلے ميں، خاندان کے اندروني انتظام اور بچہ داري کي صلاحيت سے محروم ہوتي ہيں، ليکن اس کا جواب بھي يہ ہے کہ شادي کے مختلف فوائد ہيں- شادي کا قطعي لازمہ مستقل خاندان تشکيل دے کر بچے جننا اور پالنا ہي نہيں ہے؛ متعلقہ خاندان بچوں کے روابط کو نظرانداز کرنے کے بجائے ان کي شادي کے اسباب فراہم کرکے دلہا دلہن کي سرپرستي کر سکتے ہيں حتي کہ وہ خاندان کے مستقل انتظام کے قابل ہوکر فکري بلوغت کے مرحلے تک پہنچ سکيں- يہ ماضي سے رائج، روايت حسنہ ہے؛ جس کے تحت دلہا اور دلہن شادي کے بعد کئي سال ماں باپ کے زير تربيت رہتے تھے اور انہيں جنسي ضرورت پوري کرنے اور جذباتي تعلق برقرار رکھنے کے مواقع بھي فراہم ہوتے تھے-
علاوہ ازيں، جنسي بلوغت کے وقت شادي کي ہدايت، درحقيقت شادي کي تمہيدات کي فراہمي اور ماحول سازي کي ہدايت بھي ہے- منجملہ يہ کہ ماں باپ ـ بطور خاص ماۆں ـ پر واجب ہے کہ وہ اپني بيٹيوں کو شوہرداري اور بچوں کي پرورش کي تعليم ديں-
حوالے:
(1) وسائل الشيعه ط بيروت - لبنان - ج14 ص39-
(2) حلية المتقين- آداب نكاح و آداب تربيت فرزندان
ترجمہ : فرحت حسین مہدوی
متعلقہ تحریریں:
شريعت النساء
عورت کا مقام و مرتبہ ( حصّہ چهارم)