• صارفین کی تعداد :
  • 851
  • 8/19/2013
  • تاريخ :

مصر ميں جمہوري حکومت کے خلاف سازش

مصر میں جمہوری حکومت کے خلاف سازش

 ڈاکٹر مونا مکارم کا يہ خطاب آن لائن موجود ہے- انہوں نے سامعين کو بتايا کہ تيس جون کي صبح يعني فوجي اقدام سے چار دن پہلے انہيں سابق وزير ہاوسنگ حسب اللہ الکفراوي کي رہائش گاہ پر ايک اجلاس ميں شرکت کے لئے مدعو کيا گيا- واضح رہے کہ کفراوي سابق مصري صدر حسني مبارک کے بہت قريبي ساتھي رہے ہيں اور ان کے ہاتھوں مصر کا اعليٰ ترين اعزاز حاصل کر چکے ہيں- ڈاکٹر مونا مکارم کے بقول اس اجلاس ميں حسب اللہ الکفراوي کي ساتھ والي نشست پر سابق جنرل فواد علام بيٹھے تھے- يہ صاحب حسني مبارک کے دور ميں مصر کي داخلي انٹيلي جنس سروس کے سربراہ رہ چکے ہيں - اخوان المسلمون کے کٹر مخالف ہيں- اذيت رساني کے فن ميں دنيا کي ماہر ترين شخصيات ميں سے ہونے کي شہرت رکھتے ہيں اور دو عشروں تک مصر کے مذہبي گروپوں کي نگراني اور گرفتار کئے جانے والے ارکان سے اپنے مخصوص حربوں کے ذريعے تفتيش اور پوچھ گچھ کے فرائض انجام ديتے رہے ہيں- اس اجلاس کے شرکاء ميں ڈاکٹر مونا کے مطابق دو درجن کے قريب سيکولر صحافي، دانشور اور اپوزيشن سے تعلق رکھنے والے سياستداں بھي شامل تھے-اجلاس شروع ہونے پر ڈاکٹر مونا کے بقول حسب اللہ الکفراوي نے شرکاء کو بتايا کہ وہ فوجي قيادت، قبطي پوپ اور شيخ الازہر سے رابطے ميں ہيں اور آرمي چيف جنرل عبدالفتاح السيسي نے رازداري کے ساتھ ان سے فوجي مداخلت کے لئے اپوزيشن کي جانب سے ايک تحريري مطالبہ کي درخواست کي ہے- ڈاکٹر مونا کے انکشاف کے مطابق اپوزيشن کي پچاس سے زائد شخصيات کے دستخطوں کے ساتھ يہ تحريري مطالبہ چند گھنٹے کے اندر تيار کر ليا گيا اور تين بجے سہ پہر کے قريب فوج کے حوالے کرکے جنرل سيسي کي فرمائش پوري کر دي گئي- واضح رہے کہ تحرير اسکوائر پر مظاہروں کا سلسلہ منتظمين کے پيشگي اعلان کے مطابق اس دن پانچ بجے سے شروع ہونا تھا يعني جس وقت جنرل عبدالفتاح نے حسني مبارک کے ساتھي حسب اللہ الکفراوي سے مرسي حکومت کے خاتمے کے لئے فوج کي جانب سے مداخلت کي درخواست پر مشتمل اپوزيشن کے تحريري مطالبے کي فرمائش کي اس وقت صدر مرسي کے خلاف قاہرہ کي سڑکوں پر کسي قابل لحاظ عوامي احتجاج کا آغاز بھي نہيں ہوا تھا-  ڈاکٹر مونا کے انکشاف سے فوجي قيادت کي نيت کے حوالے سے جو صورتحال سامنے آتي ہے اس کي مزيد تصديق خود جنرل فتاح کے اپنے ايک بيان سے بھي ہوتي ہے- جب فوجي قيادت کے اندازوں کے برعکس مرسي کي جائز حکومت اور عوام کے جمہوري حقوق کي بحالي کے لئے ملک بھر ميں لاکھوں افراد کے احتجاج کا سلسلہ آٹھ جولائي کو مظاہرين پر فوج کي براہ راست فائرنگ کي کارروائيوں کے بعد بھي (جسے اقوام متحدہ کے سيکريٹري جنرل بان کي مون نے بھي قتل عام قرار ديا اور اس کي شديد مذمت کي) نہيں تھما بلکہ بڑھتا ہي چلا گيا تو جنرل سيسي نے 24 جولائي کو اپنے نشري خطاب ميں مصري عوام سے اپيل کي کہ وہ فوجي کارروائي کے خلاف کئے جانے والے مظاہروں کي مخالفت ميں سڑکوں پر آ کر انہيں ”‌تشدد اور دہشت گردي“ کے خلاف فيصلہ کن کارروائي کا مينڈيٹ فراہم کريں- ( جاري ہے )

 

متعلقہ تحریریں:

 مصر کے کشيدہ حالات

مصر کے حالات انتہائي دردناک، رہبر انقلاب اسلامي