ايران اور مغربي ثقافت
حجاب، قائد انقلاب اسلامي کے نقطہ نگاہ سے(حصّہ اوّل)
حجاب، قائد انقلاب اسلامي کے نقطہ نگاہ سے(حصّہ دوّم)
حجاب، قائد انقلاب اسلامي کے نقطہ نگاہ سے(حصّہ سوم)
حجاب، قائد انقلاب اسلامي کے نقطہ نگاہ سے(حصّہ چہارم)
حجاب، قائد انقلاب اسلامي کے نقطہ نگاہ سے(حصّہ پنجم)
حجاب، قائد انقلاب اسلامي کے نقطہ نگاہ سے(حصّہ ششم)
حجاب، قائد انقلاب اسلامي کے نقطہ نگاہ سے(حصّہ ہفتم)
مغربي ثقافت کي جبري ترويج:
جس نے مغربي تہذيب يعني در حقيقت ايران پر مغرب کے تسلط کے حق ميں اور برطانيہ کے سامراجي قبضے کے مفاد ميں اس زمانے ميں سب سے بڑا قدم اٹھايا وہ (سابق شاہ ايران) رضا خان تھا- موجودہ حالات ميں يہ اقدامات کتنے شرمناک سمجھے جاتے ہيں کہ کوئي بادشاہ يکبارگي ملک کے قومي لباس کو بدل دے! ہندوستان اور دنيا کے دور دراز کے علاقوں ميں قوموں کے پاس اپني پوشاک اور اپنا لباس ہے اور وہ اس پر فخر بھي کرتي ہيں، کسي طرح کي خفت محسوس نہيں کرتيں- ليکن ان (ايران کے شاہي دربار سے متعلق) لوگوں نے يکبارگي اعلان کر ديا کہ يہ (قومي) لباس ممنوع ہے! کيوں؟ کيونکہ اس لباس کے ساتھ صاحب علم نہيں ہوا جا سکتا! واہ بھئي واہ! ايران کے عظيم ترين سائنسداں جن کي کتابيں اب بھي يورپ ميں پڑھائي جاتي ہيں اسي ثقافت اور اسي ماحول ميں پلے بڑھے- اس لباس کا (ان پر) کيا (منفي) اثر پڑا؟ يہ کيا بات ہوئي؟! اس طرح کي مسخرے پن کي باتيں کي گئيں- ايک قوم کا لباس ہي بدل ديا گيا- عورتوں کي چادر کو ممنوع کر ديا گيا- اعلان کر ديا گيا " چادر ميں رہ کر عورت دانشور اور سائنسداں نہيں بن سکتي اور سماجي سرگرميوں ميں حصہ نہيں لے سکتي" ميں سوال کرتا ہوں کہ ايران ميں چادر پر پابندي لگا دينے کے بعد عورتوں نے سماجي سرگرميوں ميں کتنا حصہ ليا؟ کيا رضا خان کے دور حکومت ميں يا رضا خان کے بيٹے کے دور ميں عورتوں کو سماجي سرگرمياں انجام دينے کي اجازت دي گئي؟! نہ مردوں کو اس کي اجازت دي جاتي تھي اور نہ عورتوں کو اس کا موقع ملتا تھا- جس وقت ايراني خواتين سماجي سرگرميوں کے ميدان ميں اتريں اور انہوں نے ملک کو اپنے مقتدر ہاتھوں پر بلند کيا اور ملک کے مردوں کو بھي جد و جہد کے ميدان ميں کھينچا اس وقت وہ چادر پہنے ہوئے ميدان ميں آئي تھيں- چادر کے کيا منفي اثرات ہيں؟! کسي مرد يا کسي عورت کي سرگرميوں ميں لباس کب رکاوٹ بنتا ہے؟! يہ نادان، ان پڑھ غنڈہ رضاخان دشمن کے ہاتھوں ميں پڑ گيا اور اس نے اچانک ہي ملک کا لباس بدل ديا- اس لئے کہ مغربي عورتوں کے ہاں سر برہنہ باہر نکلنے کا رواج تھا! مغرب سے يہ چيزيں لائي گئي تھيں- قوم کو جن چيزوں کي اشد ضرورت تھي وہ نہيں لائي گئيں- علم و دانش لانے کي کوشش نہيں کي گئي، تجربات حاصل کرنے کي کوشش نہيں کي گئي، سعي و کوشش اور محنت کي عادت کي پيروي نہيں کي گئي، مہم جوئي (کے جذبے) کو لانے کي کوشش نہيں کي گئي- ہر قوم ميں کچھ اچھي صفات و خصائص ہوتے ہيں، ان صفات کو اپنانے کي کوشش نہيں کي گئي- جو چيزيں لائي گئيں انہيں آنکھ بند کرکے قبول کر ليا گيا- جو افکار و نظريات لائے گئے وہ بغير غور و فکر کے من و عن قبول کر لئے گئے- کہا گيا کہ چونکہ يہ مغربي (افکار و نظريات) ہيں اس لئے انہيں قبول کر لينا بہتر ہے- لباس، غذا، انداز گفتگو اور چلنے کي روش چونکہ مغربي ہے اس لئے اسے اپنا لينا چاہئے! اس ميں کسي پس و پيش کي گنجائش نہيں ہے! کسي بھي ملک کے لئے يہ صورت حال مہلک زہر کي مانند ہوتي ہے- يہ قطعا درست نہيں ہے-
بشکريہ خامنہ اي ڈاٹ آي آڑ
متعلقہ تحریریں:
قرآن مجيد اور خواتين
عورت کى حيثيت اور اس کا مقام