• صارفین کی تعداد :
  • 5443
  • 4/13/2013
  • تاريخ :

مشتاق احمد يوسفي کی طنز نگاری

مشتاق احمد یوسفی

مشتاق احمد یوسفی

طنز ميں، طنزنگار زندگي کي کسي ناہمواري کو يا کمزوري کو، لفظوں کے نشتر لگاتا ہے تاکہ بہتري اور اصلاح کي صورت پيدا ہو- يوسفي کے ہاں، مزاح، ظرافت اور طنز تينوں کي کارفرمائي ہے-

يوسفي طنز و مزاح ميں حدفاصل قائم نہيں کرتے بلکہ طنز ميں مزاح، اس طرح شامل کرتے ہيں کہ دونوں کو الگ الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے- يوسفي کے ہاں ذہانت سے بھرپور ظرافت ملتي ہے- ان کے ہاں جرأت اور بےباکي کي کمي نہيں، مگر وہ اس کا غيرفنکارانہ استعمال نہيں کرتے-

يوسفي کا طنز، لطافت کا حامل ہوتا ہے-

ان کے طنز ميں مزاح، اور مزاح ميں طنز ہے-

انہوں نے کسي فرد کو ہدف بنانے کي بجائے، انساني کمزوريوں اور سماجي خرابيوں کو موضوع بنايا ہے- ان کے موضوعات ميں، خاصا متنوع ہے-

يوسفي کے طنزکا بھرپور وار، بھي اپنے عہد کي بوالعجميوں، سياسي، سماجي، اخلاقي قدروں پر ہوتا ہے-

انہوں نے زندگي کي بےہيئتي کو پسند نہيں کرتے- سہل انگاري، غفلت شعاري اور جامد لمحوں کي مخالفت ميں طنز کے ہتھيار اٹھاتے ہيں اور اپني طبعي ذکاوت، فقرہ بازي، موازنہ، بذلہ سنجي، پيراڈاکس گفتگو اور تحريف کے مضحک حربوں سے کام لے کر طنزنگاروں کي صف ميں، کھڑے ہو جاتے ہيں-

مجموعي طور پر، يوسفي کا حساس دل، زمانے کي کج رويوں، ناہمواريوں اور ناانصافيوں سے بےقرار ہے- وہ ان پر طنز کرتا ہے مگر انداز ميں ميانہ روي اور اعتدال ہے- انساني عظمت اور وقار ہميشہ پيش نظر رہتا ہے- وہ انسان کي بےبضاعتي اور بےتوقيري پر روتا ہے اور زندگي کے اس تضاد پر طنز وار کرتا ہے-

مشتاق احمد يوسفي کے اسلوب اور فن بيان:

مشتاق احمد يوسفي نے اردو مزاح کو، ايک نئے اسلوب سے آشنا کيا ہے- ان مضامين ميں تفکر اور تعيش کا ايک خوبصورت امتزاج ملتا ہے- مزاح، ظرافت، بصيرت اور مشاہدے کا جيسا خوبصورت اور خوبصورت امتزاج مشتاق احمد يوسفي کے يہاں ملتا ہے-

يوسفي کا بيان ميں ايجاز و اختصار موجود ہے-

ان کے اسلوب ميں بےتکلفي اور بےساختگي ہے-

اچھوتے الفاظ کا استعمال، ان کے يہاں ہے-

تجنس و تضاد کي صنعتوں سے ان کا لگاۆ ہے-

ہم قافيہ الفاظ کي طرف، ان کي رغبت ہے-

رعايت لفظي سے ان کي دلچسپي ہے خاص طور پر صنعت تجنيس کا استعمال ان کے ہاں زيادہ ہے-

مشتاق احمد يوسفي واقعاتي مزاح، موزون خيال، موضوعات کے تنوع اور فني محاسن کے لحاظ سے ايک منفرد اور ممتاز مزاح نگار ہيں-

يوسفي کے اسلوب بيان کا کمال يہ ہے کہ ہدف سے کراہيت يا نفرت پيدا ہونے کي بجائے اس کي ذات سے ہمدردي کے جذبات امڈ آئے-

مشتاق احمد يوسفي نے مزاح نگاري ميں پنجابي، پشتو، انگريزي الفاظ کا برمحل استعمال کيا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ انہيں دوسري زبانوں پر بھي عبور حاصل ہے- ان کے اسلوب ميں ايک جدت ہے اور طنز و مزاح کے باب ميں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اردو ادب ميں ايک شاندار اضافہ ہے- انہوں نے اپني تحريروں ميں جابجا فارسي اشعار برمحل استعمال کئے ہيں جو قاري کو لطف ديتے ہيں، اسي طرح انگريزي کے وہ الفاظ جو روزمرے ميں داخل ہو چکے ہيں، وہ بلاتکلف استعمال ہوکر عبارت کا جزء بن گئے ہيں-

يوسفي کے فن کا يہ کمال يہ ہے کہ انفراديت اس کے فن ميں ہے کہ وہ مزاح کے معاملے ميں کسي دبستان کي پيروي نہيں کرتے وہ مزاح پيدا کرنے کےلئے ہر حربہ استعمال کرتے ہيں-

يوسفي کو الفاظ کے استعمال کا بڑا گہرا شعور ہے، انہوں نے زبان و بيان کي لغزشوں کي طرف بڑي انکساري سے توجہ دلائي ہے- يوسفي خود ہي نئي نئي تراکيب وضع کرتے جاتے ہيں ß اس سے الفاظ کم ہوجاتے ہيں مگر اظہار و ابلاغ ميں وسعت پيدا ہو جاتي ہے-

مشتاق احمد يوسفي نے احساس کو نئي دھنک اور فکر کو نيا گداز ہي نہيں بخشا- اردو نثر کو ايک انوکھا، منفرد اور تہ دار اسلوب بھي بخشا اور يہ سچ ہے کہ الفاظ کے تلازموں اور مفاہيم کي نئي سرحديں مشتاق يوسفي کي تحرير سے متعين ہوتي ہيں- مير تقي مير نے شاعري ميں جس انداز کو ايہام کے بدلے شيوہ بياني کے نام سے اختيار کيا تھا- مشتاق نے يہ کارنامہ نثر ميں کر دکھايا ہے، لفظ کو نئي جہت دے کر اسے نئي قوت اور نئي توانياں بلکہ جہتوں سے مالامال کرنا يوسفي کا کمال ہے- اسي طرح يوں کہيئے کہ تہذيب کي نئي صدياں ان کي زبان سے بولنے لگتے ہيں-

يوسفي انساني نفسيات کا مشاہدہ بڑي باريک بيني سے کرتا ہے اور اس کے نتائج کو بڑے تند و تيز جملوں سے بيان کرتا ہے- وہ کبھي ايسي بات کہتا ہے جس کا وقوع پذير ہونا طبعاً ممکن نہ ہو، اسے قول محال کہتے ہيں- يوسفي کے ہاں، انتہائي دلچسپ اور لطيف نمونہ تحريروں ميں جابجا بکھرے پڑے ہيں-

يوسفي کو الفاظ برتنے کا سليقہ آتا ہے- وہ متروک اور ايسے الفاظ جنہيں شرفاء بولنے سے گريز کرتے ہيں بڑے سليقے اور استدلال کے ساتھ اس طرح استعمال کرتے ہيں کہ قاري انہيں برداشت کرنے اور ان سے لطف لينے پر مجبور ہو جاتا ہے اور طيب منير نے ان الفاظ کو "متروکات محاسن" کا نام ديا ہے-

فن يوسفي کے بارے ميں خاص بات يہ ہے کہ وہ انشاء پرداز کم اور فنکار زيادہ ہيں-

ان کي کوئي سطر يا لفظي تراکيب ايسي نہيں ہوتي جو قاري کي فکر و نظر کو نئي روشني نہ دے جاتي ہو- اور يوسفي ظرافت نگار کي حيثيت ايک نيا دبستان ہيں-