طنز و مزاح
مزاح (homer) کي تعريف: کسي عمل، خيال، صورتحال، واقعے، لفظ يا جملے کے خندہآور پہلوğ کو دريافت کرنا، سمجھنا اور ان سے محظوظ ہونا-
طنز (satire) کي تعريف: حماقتوں، برائيوں اور بداخلاقي کي مذمت، بدمزگي پيدا کيے بغير اس طرح کرنا کہ ان کے خلاف جذبات پيدا ہوں اور مزاح بھي پيدا ہو-
اردو نثر ميں مزاحنگاري:
1ـ ابتدائي دور (آغاز سے 1857ء تک):
فارسي شعرا کے پاس معاصرانہ چشمکوں اور طنز و تعريض کي روايت تھي- وہ اردو ميں در آئي اور اس کےآثار قطبشاہي دور کے شعرا کے پاس بھي ملتي ہيں-
مثلاً نط”صرتي اپني مثنوي “علينامہ”(1665ء) ميں بعض مقامات پر مغول اور اورنگزيب کي فوجيوں کا مضحکہ اڑايا ہے اور ايک آدھ مقام پر دشمنوں کے پسپا ہونے اور شکست کھاکر بھاگنے کا نقشہ کھينچا ہے-
عادلشاہي دور کے شاعر ملک خوشنود کے پاس ايک گھوڑے کي ہجو ميں چند اشعار ملتے ہيں-
اردو نثر ميں مزاح کا اولين نمونہ:
(1) جعفر زٹلي(1658ء ـ 1713ء): جعفرزٹلي کے پاس اردو ميں مزاح کي روايت کے اولين باقاعدہ نقوش نظر آتے ہيں- جعفر سے پہلے نظم اور نثر دونوں ميں مزاح کي مثاليں مدّھم، بےقاعدہ اور سرسري ہيں- جعفر مزاح کے سلسلے ميں اولين کڑي ہيں- درحقيقت جعفر اردو ميں مزاحنگاري کے باني ہيں- انہيں اردو کا اولين مزاحنگار تسليم کرنا چاہيے-
جعفر ايک بےباک اور تيز مزاح شخص تھے اور اسي ليے انہيں اپني جان سے ہاتھ دھونا پڑا- “فرخسير” جب تختنشين ہوا تو اس نے اپنا سکہ جاري کيا- سکوں پر يہ شعر تھا: “سکہ زد از فضل حق بر سيم و زر/ بادشاہ بحر و بر فرخ سير”-
فرخسير ظالم تھا اور اس نے کئي نامور لوگوں کو تسمہکشي کے ذريعے ہلاک کر ديا تھا-جعفر نے سکوں پر لکھے ہوئے شعر کو يوں تحريف کي: “سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر/ بادشاہ تسمہکش فرخسير”- يہ شعر سن کر فرخسير نے جعفر کو قتل کروا ديا-
مزاح پيدا کرنے کے ليے جعفر کا سب سے بڑا ہتھيار ہجو اور تحريف ہے- جعفر کي نثر کا غالب حصہ فارسي ميں ہے مگر بنيادي الفاظ و محاورات وغيرہ ضربالامثال اردو کے ہيں- ان کے سامنے اردو مزاح کا کوئي نمونہ نہيں تھا- ان کے مزاج کا معيار بلند نہ ہونے کے باوجود اردو ميں اولين نمايندہ سياسي اور سماجي طنز پہچانا جاتا ہے-
کليات جعفر زٹلي ميں شامل“اخبارات سياہہ دربار معلي” ہے جو دراصل “اخبار ديوان خاص” کي تحريف ہے- اس دور کے کئي سياسي واقعات کي نشاندہي ہوتي ہے-
“نسخہ چورنِ امساک و ہاضمہ الطعام”: جعفر زٹلي کي يہ نثر، نسخہجات کي تحريف ہے-
(2) شاہحاتم(1699ء ـ 1773ء): جعفر زٹلي کے بعد مزاح کي تلاش ميں اگر اردو نثر پر نظر ڈالي جائے تو جعغر کے مزاح اور اس کے بعد لکھے گئے نثري مزاح کے درميان تقريباً سو سال کا فاصلہ نظر آتا ہے-
“نسخہ مفرح الضحک”: شاهحاتم کي يہ نثر، ايک مزاحيہطلبي نسخہ ہے اور يہ نسخہ جعفر زٹلي کے “نسخہ چورنِ امساک و ہاضمہ الطعام” سے خاصا ملتا جلتاہے- اطبا کے نسخہجات کي تحريف لکھنا، جعفر زٹلي کا تتبع ہے اور الفا1 حاتم نے بعينہ وہي استعمال کيے ہيں جو جعفر کے پاس ملتےہيں-
اگر داستانوں ميں پائے والے مزاح کو نظرانداز کر ديا جائے تو جعفر زٹلي اور شاہحاتم کے بعد اردو ميں مزاح انيسويں صدي کے ابتدائي سالوں تک دستياب نہيں ہوتا-
(3) سعادت يارخانرنگين: “اخبار رنگين”(1819ء ـ 1822ء): پيرايہ بيان جعفرزٹلي کے وقايع دربار معلي سے خاصا ملتا جلتا ہے- رنگين سني مذہب تھے اور واقعات ميں شيعہ سني تنازع کو موضوع بنايا ہے ارو ان ميں سني مسلک کو برحق بتايا ہے- ان کي اردو نثر قليل ہے-
(4) انشاءا...خانانشاء:“دريائےلطافت”(1808ء): اردو قواعد کے موضوع پر ہے- مثاليں اردو ميں ہيں اور انشاء نے کئي طبقوں کي اردو کي نقل اتاري ہے-
2ـ دوسرا دور: اردو نثر ميں مزاح کا تشکيلي دور (1857ء سے 1900ء تک):
غالب:
“غالب کے خطوط”(1797ء ـ 1869ء)
غالب کي ديگر اردو نثري تصانيف: “لطائف غيب”(1865ء)، “تيغتيز”(1867ء)، “سوالاتعبدالکريم”(1865ء)- ان ميں کہيں کہيں مزاح کي جھلکياں ملتي ہيں-
عليگڑھ تحريک کا مزاح:
(الف) سرسيداحمدخان نے خود تو مزاح زيادہ تخليق نہيں کيا ليکن وہ مزاح کي تخليق کا باعث بنے-
(ب) نذيراحمد(1830ء ـ 1912ء): نذيراحمد کے اخلاقي اور مقصدي ناولوں ميں پائے جانے والے مزاح بڑا عمدہ اور جامع ہے- نذيراحمد باقاعدہ مزاحنگار نہيں تھے مگر ان کےپاس بعض نہايت اچّھے نمونے ملتے ہيں-
مزاح کا پس منظر: مسلمانوں کي اصلاح کے خيال اور مغرب کي نقالي سے پرہيز پر مبني ہے-
“اودھپنچ” اور مزاحنگاري:
“اودھپنچ” ہفتروزہ رسالہ/اخبار ہے لکھنۆ سے- 1877ء سے شايع ہونے لگا ہے-اس کا مدير “منشيسجادحسين” ہے- ”اودھپنچ” اردو کا پہلا مزاحيہ جريدہ نہيں تھا، اردو کا پہلا مزاحيہ اخبار “مذاق” تھا جو رامپور سے 1845ء کو جاري کيا گيا- “اودھپنچ” نے مزاحيہ صحافت کو اتني ترقي اورمقبوليت عطا کي کہ “اودھپنچ” کي تقليد ميں کئي “پنچ” اخبارات جاري کيے گئے، اور يہ سلسلہ بيسويں صدي کے آغاز تک چلتا رہا-
منشيسجادحسين(1856ء ـ 1915ء): صحافي ہونے کے ساتھ ساتھ ناولنگار بھي تھے- ان کي تصانيف: “احمقالذين”، “پياريدنيا”، “حاجيبغلول”، “کايا پلٹ”، “حياتشخچلي”، “طرحدار لونڈي”- سجادحسين کے مزاح کا انداز (بالخصوص “حاجيبغلول” ميں) کيلے کے چھلکے پر سے پھسلنے والے آدمي کو ديکھ کر ابھرنے والے قہقہے کا سا ہے-
لفظي پيوند، مضحک تشبيہات اور تحريف بھي ان کے ہتھيار ہيں-
اکبرالہآبادي(1845ء ـ 1921ء): ان کي نثر ميں تراجم سے قطعنظر، متعدد مضامين و خطوط بھي شامل ہيں- “اودھپنچ” ميں اکبر کے مضامين “ا ـ ح” کےنام سے شايع ہوئے جو “اکبرحسين” کا مخفف ہے- اکبر کے پاس طنز کے ساتھ ساتھ مزاح بھي ہے- اکبر، عليگڑھ تحريک کے خلاف تھے-
تربھونناتھہجر: اودھپنچ کے اہم لکھاريوں ميں سے ہے-
عليگڑھ تحريک کا معاصر مزاح:
پنڈترتنسرشار(1846ء ـ 1903ء): اودھپنچ گے بعد “اودھاخبار” ميں لکھنا شروع کيا- سرشار کے پاس مزاح پيدا کرنے کے ليے مختلف حربے ہيں؛ مثلاً بذلہ سنجي ، عملي مذاق، مضحکہخيز واقعات، مزاحيہ کردار، کبھي کبھي پيروڈي اور طنز سے بھي کام ليتے ہيں-
متعلقہ تحریریں:
رپورٹ اور رپورتاژ ميں بڑا فرق ہوتا ہے