ايران کا اسلامي انقلاب اور اسلامي جوش
انقلاب ايران سے اسلام کي سربلندي
خدا کي حاکميت کي طرف رحجان
ايران کے اسلامي انقلاب نے نيا ساختار متعارف کروايا
اسلامي انقلاب ايران کے متعلق مغربي نظريہ دانوں کي خوش فہمي
لوگوں کي سياسي تحريکوں ميں شرکت کو بہت سي مثالوں ميں ديکھا جا سکتا ہے : ترکي کے لوگ سن 1359 ميں حکومت کا تختہ الٹنے سے قبل سڑکوں پر نکلے اور آزادي اور اسلامي جمہوريت کے حق ميں نعرے لگاۓ - کشمير کے لوگوں نے دو سو ہزار افراد پر مشتمل لوگوں کے جلسے ميں اللہ اکبر و خميني رھبر کے نعرے لگاۓ - فلسطين کي جہادي تحريک اسي راستے پر چل رہي ہے جس پر چلنے کي آواز اسلامي انقلاب نے لگائي تھي - وہ بلند آواز ميں لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کي فرياد لگاتے ہيں جو اس بات کي دليل ہے کہ ان کي کاميابي اسلام سے وابستہ رہنے ميں ہے - حقيقت ميں انہوں نے اپنے قوم پرستي کے نعروں کو دور کر ديا ہے اور اسلامي انقلاب کے نعروں کو اپنا ليا ہے - سن 1369 تا 1379 ميں جنوبي افريقا کے شہر کيپ ٹاۆن ميں اللہ اکبر کے نعرے بڑي شدت کے ساتھ گونجتے رہے - يہ اس بات کي ياد اور کلام رہبر انقلاب اسلامي کي تائيد ہے کہ الجزائر کے لوگوں نے ايران کے انقلابي لوگوں سے سيکھ کر ہي چھتوں پر اللہ اکبر کي صدائيں بلند کيں - (31)
اسلامي انقلاب نے دنيا کو يہ سکھايا کہ قانوني سياسي نظام کے ليۓ ضروري ہے کہ اس کي بنياد لوگوں کي حقيقي آراء پر رکھي جاۓ اور اسي وجہ سے اس نے ريفرنڈم کروايا اور يہ عمل نہ صرف حيرت انگيز ، بہادرانہ اور نئي بات تھي بلکہ ايک ايسا انديشہ تھا جو مغربي جمہوري نظام سے کہيں زيادہ بہتر ہے - اس طرح اس نے لبرل ڈيموکريسي سے تھکي ہاري دنيا کے سامنے ايک متبادل جانشين پيش کر ديا - اس انقلاب ميں حتي لوگوں نے قانون سازوں کا انتخاب کيا تاکہ اصلي قوانين کي بنياد عوامي راۓ کے مطابق ہو - جنگ کے عروج پر بھي امام نے اس بات کي اجازت نہ دي کہ کہ پہلے صدر سے وضاحت کے متعلق مجلس اپنے قانوني حق سے دستبردار ہو - انہوں نے اس بات کي اجازت نہ دي کہ جنگ کو بہتر بنانے کے بہانے فوجي حکومت کي تجاويز کو مطرح کيا جاۓ حتي اس بات کي بھي اجازت نہ دي کہ جنگ يا پابنديوں کي وجہ سے انتخابات منعقد نہ کرواۓ جائيں بلکہ وہ نصحيت کرتے تھے کہ مجلس شوري ، مجلس خبرگان اور صدارتي انتخابات کو حتي ايک دن کے ليۓ بھي مۆخر نہيں کرنا چاہيۓ - (32)
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان