شيراز کي آب و ہوا
فارس اور شيراز کا حال
شيراز کي بنياد اسلام کے زمانے ميں پڑي ہے
شيراز کي آب و ہوا نہ زياد گرم ہے نہ زياد سرد- بلکہ نہايت معتدل اور خوشگوار ہے- شيخ سعدي اور خواجہ حافظ اور اکثر پرانے اور نئے شاعرون نے شيراز کي تعريف ميں اشعار اور قصيدے لکھے ہيں- از آن جملہ خواجہ حافظ کا يہ شعر مشہور ہے:
بدہ ساقي مئے باقي کہ در جنت نخواہي يافت
کنار آب و کنار باد و گلگشت مصلي را
شيخ علي حزين لاہيجي نے بارھويں صدي ہجري ميں جبکہ شيراز کي رونق بالکل جا چکي تھي، اس کو ديکھا ہے- وہ اپني سوانح عمري ميں اس کي بہت سي تعريف کے بعد لکھتا ہے کہ "شيراز کي آب و ہوا دماغ کے ساتھ نہايت مناسب رکھتي ہے، جس قدر چاہو کتاب کے مطالعے اور فکر و غور مضامين ميں مصروف رہو، کبھي جي نہ اکتائے گا-"
اس ميں شک نہيں کہ شہر کا موقع قدرتي موقع اور آب و ہوا کي خوبي اور عمارت کي لطافت و خوش اسلوبي باشندوں کے خيالات اور قوي پر عجيب اثر رکھتي ہے- يہي سبب ہے کہ شيراز کے اکثر مشائخ اور علما و شعرا پاکيزہ طبع اور لطيف و ظريف ہوئے ہيں- شيخ سعدي نے بھي بوستان کے ديباچہ ميں اہل شيراز کو ان تمام اشخاص پر ترجيح دي ہے جن سے وہ حالات سفر ميں ملا تھا- شيراز سے جس قدر علماء و مشائخ و شعرا و مصنفين ابتدا سے آخر اخير تک اٹھے ہيں اور جن کا حال مسلمانوں کے تذکروں ميں جا بجا مذکور ہے ان کي تعداد سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس شہر کي خاک علم و ہنر کے ساتھ کس قدر مناسبت رکھتي ہے اور شيخ سعدي کے کلام کي بے نظير شہرت اور مقبوليت سے ثابت ہے کہ شيخ سعدي کا وجود بھي شيراز کے ليے کچھ کم باعث افتخار نہ تھا-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان