شيراز کي بنياد اسلام کے زمانے ميں پڑي ہے
فارس اور شيراز کا حال
اس کے سوا بہت سي خصوصيتيں ايسي ہيں جن کے ديکھنے سے انسان کے قوي ميں شگفتگي اور باليدگي پيدا ہوتي ہے- يہي سبب ہے کہ فارس کے اکثر شہر مردم خيز سمجھے گئے ہيں- جيسے يزد، ميبد، کازرون، فيروز آباد، بيضا، شيراز و غيرہ- ان شہروں ميں کثرت سے علما و فضلا اور اديب و شاعر پيدا ہوئے ہيں جن کي تصنيفات مسلمانوں ميں اب تک موجود ہيں- خصوصا شيراز جو کہ صدہا سال ايران کا پايہ تخت رہا ہے- مسلمان ايرانيوں نے جس طرح قم کو دار المومنين اور يزد کو دارالعباد خطاب ديا ہے، اسي طرح شيراز کو دارالعلم کے لقب سے ملقب کيا ہے- اگر چہ شيراز کا علم و فضل زمانے کے انقلاب اور سلطنت اسلاميہ کے تنزل سے اب نہايت پست حالت ميں ہے، ليکن اس کي موجودہ نسل کي حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپني قديم بزرگي اور برتري کے نشے ميں اب تک بدمست ہيں- حاجي لطف علي خان آذر نے اپنے تذکرے ميں لکھا ہے کہ " شيراز کے چھوٹے بڑے جوان اور بوڑھے صحبت اور جلسوں پر فريفتہ ہيں- کسب معاش اس قدر کرتے ہيں کہ کسي کے محتاج نہ ہوں- تھوڑي سي آمدني پر قانع رہتے ہيں اور ہميشہ سير گاہوں اور قہوہ خانوں ميں جمع ہوئے ہيں-"
شيراز کي بنياد اسلام کے زمانے ميں پڑي ہے- محمد بن قاسم جس نے مسلمانوں ميں سب سے اول ہندوستان پر لشکر کشي کي ہے شيراز کا باني ہے- يہ شہر پہلي صدي ہجري کے اخير ميں ايک نہايت ہي سرسبز و شاداب قطعہ زمين پر آباد کيا گيا ہے- تقويم البلدان ميں لکھا ہے کہ " شيراز کے مکانات بہت وسيع اور بازار پر رونق ہيں اور گھر گھر نہر جاري ہے- شايد ہي کوئي مکان ايسا ہو جس ميں ايک عمدہ باغ اور نہر نہ ہو-" پھر صفاريوں (1) اور ديلميوں (2) کے عہد ميں شيراز نے اور بھي زيادہ وسعت اور رونق حاصل کي- عضدالدولہ ديلمي کے زمانے ميں اس کي آبادي اس درجے کو پہنچ گئي کہ شہر ميں اہل لشکر کي گنجائش نہ رہي اور شہر کے باہر ايک جديد عمارت بنائي گئي جس کا نام سوق الامير رکھا گيا اور اس کے بيٹے –صمصام الدولہ- نے اس جديد عمارت کے گرد پختہ فصيل کھنچوائي-
حوالہ جات:
1) صفاریوں میں تین بادشاہ ہوتے ہیں، چالیس برس ان کی حکومت رہی۔
2) دیلمیوں میں اٹھارہ بادشاہ ہوئے، جن کی حکومت 248 برس رہی۔
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان