معاشرتي ہم آہنگي اور ترقي، افراد کے ليے شخصي آزادي کي وسيع حدود کے ساتھ زيادہ سازگار ہے
امام (رح) : قانون کي ايک کتاب ہر زمان و مکان کے ليے مناسب ہو سکتي ہے
امام (رح) معتقد ہيں کہ ہر انسان کو صحيح الہي قوانين کو دوسرے مخالف قوانين سے الگ کرنے کي صلاحيت ہے
معاشرتي- سياسي آزادي
کسي غير کا بندہ نہ بن کيونکہ خدا نے تجھے آزاد پيدا کيا ہے
"اسلام ميں زبر دستي اور آمريت نہيں ہے- اسلام ميں ہر طبقے کے افراد کے لئے آزادي ہے- عورت، مرد، سفيد و سياہ، سب کے ليے (جو ڈيموکريسي ہمارے پاس ہے يہي حقيقتا ڈيموکريسي ہے)-"
پس ہميں شخصي يا انفرادي زندگي اور عمومي يا حکومتي زندگي ميں حد کا قائل ہونا پڑے گا- البتہ اس حد کي موقعيت ايک ايسا مسئلہ ہے جس پر مختلف مکاتيب فکر کے درميان بحث اور اختلافات موجود ہے-
ہابز اور مارکسزم کے خلاف جو يہ عقيدہ رکھتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے حکومتي نظارت کے دائرے ميں اضافہ کرنا چاہيئے اور افراد کي شخصي آزادي کو کم کرنا چاہيئے، امام (رح) معتد ہيں کہ معاشرتي ہم آہنگي اور ترقي، افراد کے ليے شخصي آزادي کي وسيع حدود کے ساتھ زيادہ سازگار ہے-
ايسي حدود جن کي خلاف ورزي کا حق نہ حکومت کو اور نہ کسي اور شخص کو حاصل ہے ان حدود کي خلاف ورزي چاہے کتني ہي کم کيوں نہ ہو تو خودسري اور استبداد شمار ہوگي- عقيدے، مذہب، بيان، کام کاج، مالکيت و غيرہ کي آزادي ہر قسم مي خودسرانہ مداخلت سے محفوظ ہوني چاہيئے اور حکومت کا کردار بھي يہي ہے-
حکومت کي اقسام
امام (رح) کے سياسي تفکر کا ايک اہم حصہ جس پر کافي توجہ نہيں دي گئي وہ موجودہ حکومتوں کا مطالعہ اور ان کے تحت افراد ميں خاص قسم کي خصوصيات اور عادات کے جنم لينے پر ان حکومتوں کے اثرات کو چانچنا ہے- امام (رح) آج کي موجودہ حکومتوں کي مختلف شکلوں کو تفضيل سے بيان کرتے ہوئے ان کو مختلف وجوہات کي بنا پر گروہوں اور دوستوں ميں تقسيم کرتے ہيں- البتہ يہ مسئلہ امام (رح) نوعيت کے اعتبار سے حکومت کو دو اقسام، الہي حکومت اور شيطاني حکومت ميں تقسيم کرتے ہيں- شيطاني حکومتيں خود ساختہ قوانين بنانے کے در پے ہيں جبکہ الہي حکومت خدا کے قوانين کي پابند ہے-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان