کسي غير کا بندہ نہ بن کيونکہ خدا نے تجھے آزاد پيدا کيا ہے
حکومت کا ايک اور بنيادي رکن قانون ہے
امام (رح) : قانون کي ايک کتاب ہر زمان و مکان کے ليے مناسب ہو سکتي ہے
امام (رح) معتقد ہيں کہ ہر انسان کو صحيح الہي قوانين کو دوسرے مخالف قوانين سے الگ کرنے کي صلاحيت ہے
معاشرتي- سياسي آزادي
جيسا کہ مفکرين اس بات پر تاکيد کرتے ہيں کہ ايسي نامحدود "آزادي" جو "قدرتي آزادي" کے نام سے معروف ہے معاشرے کے اندر اختلاف اور اس کي نابودي کا باعث بنے گي يا يہ کہ قوي افراد، کمزور افراد کي آزادي کو پائمال کرديں گے-
پس آزادي عدالت، امن عامہ، فلاح و بہبود، ہدايت و غيرہ جيسے مسائل کے فائدے ميں محدود ہوني چاہيئے اور ہر شخص کو اپني آزادي کے کچھ حصے کو دوسروں کي خاطر قربان کرنا چاہيئے کيونکہ ايسي محدوديت کے بغير ايک مطلوب معاشرے کا قيام امکان پذبر نہ ہو گا-
دو چيز جو انسان کي آزادي کے دائرے کو محدود کرتي ہے قانون ہے:
" يہ لوگ آزادي کو صحيح طور پر بيان نہيں کرتے يا پھر نہيں جانتے- ہر ملک ميں آزادي قانون کے دائرے ميں ہے- اس ملک کے قوانين کے دائرے ميں ہے- لوگ يہ آزادي نہيں رکھتے کہ قانون کو توڑ ڈاليں- يعني آزادي کا مطلب يہ نہيں کہ ہر شخص قوم کے بنيادي آئين اور قوم کے قومي قوانين کے خلاف جو چاہے بولتا رہے- آزادي کسي بھي ملک کے قوانين کے اندر محدود ہے- ايران ايک اسلامي ملک ہے اور اس کے قوانين بھي اسلام کے قوانين ہيں"-
ليکن انسان کي آزادي مکمل طور پر سلب کرلينا اس کو حيوانيت کي طرف لے جانے کا باعث ہے-
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں:
"کسي غير کا بندہ نہ بن کيونکہ خدا نے تجھے آزاد پيدا کيا ہے"-
لہذا امام (رح) مکتب ہدايت کے دوسرے مفکرين کے ہمراہ اس بات کے معتقد ہيں کہ اگرچہ سياسي، معاشرتي مسائل ميں محدوديت ايک ضروري چيز ہے ليکن افراد کے شخصي مسائل کي حدود ميں حداکثر آزادي کا قائل ہونا چاہيئے اور اسے کسي صورت ميں بھي محدود نہ کيا جائے کيونکہ اس صورت ميں شخص اس قدر تنگ گلي ميں داخل ہوجائے گا کہ حتي اس کي فطري صلاحيتيں بھي نشو و نما نہيں پا سکيں گي- در نتيجہ وہ ايسي سرگرميوں کا شکار ہوجائے گا جو اس کي معاشرتي شناخت اور شخصيت کو نابود کرديں گي اور يہ سب کچھ معاشرے کے ختم ہوجانے کا باعث بنے گا-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان