امام (رح) معتقد ہيں کہ ہر انسان کو صحيح الہي قوانين کو دوسرے مخالف قوانين سے الگ کرنے کي صلاحيت ہے
امام (رح) : "عدالت" کے مفہوم کو اس کے وسيع عملي ميدان ميں تلاش کرني ہے
صحت مند سياسي روابط اور مطلوب سياسي معاشرے کي تشکيل
حکومت کا ايک اور بنيادي رکن قانون ہے
امام (رح) : قانون کي ايک کتاب ہر زمان و مکان کے ليے مناسب ہو سکتي ہے
توجہ رہے کہ دنيا ميں موجودہ تقريبا ہر حکومت اپني رعايا سے يہ توقع رکھتي ہے کہ وہ اس حکومت کے جاري کردہ قوانين کي اطاعت کريں- امام (رح) جو الہي قوانين کي وضاحت کرتے ہيں اس کے مطابق ہم اس اہم نتيجہ پہنچتے ہيں کہ رعايا کا اپنے حکومتي قوانين کي اطاعت کرنا مطلق نہيں ہے بلکہ مشروط ہے- اس معني ميں کہ اگر يہ قوانين الہي قوانين سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو کسي شخص پر ان قوانين کي اطاعت کي ذمہ داري عائد نہيں ہوتي ليکن جب بھي يہ قوانين الہي قوانين کے ساتھ مطابقت کا نتيجہ ہے اور اس قوانين کے بنانے والے يعني حکومت کے ساتھ اس کا کوئي تعلق نہيں- امام (رح) کچھ مفکرين کے برعکس اس بات کے معتقد ہيں کہ ہر انسان فطري طور پر صحيح الہي قوانين کو دوسرے مخالف قوانين سے الگ کرنے کي صلاحيت رکھتا ہے-
امام (رح) سابق علماء کي مانند تاکيد کرتے ہيں کہ قانون اپنے حقيقي اور کامل معنوں ميں ايک ايسا آسماني مجموعہ ہے جو انسانوں کي سعادت کے ليے نازل ہوا ہے- امام (رح) الہي اور عرفي قانون يعني وہ قانون جو انسان کي ناقص عقل سے ماخوذ ہے، کے درميان فرق کے قائل ہوتے ہوئے کہتے ہيں:
"غير انبياء عليہم السلام کے توسط سے وجود ميں آنے والي حکومتيں جہاں تک ان افراد کي سوچ ہے اگر ہم فرض کريں کہ يہ سو فيصد امانت دار ہيں اور اپني قومون کا درد رکھنے والے ہيں ليکن انساني سوچ کا دائرہ ديکھنا چاہيئے کہ کہاں تک ہے اور انسان کہاں تک ترقي کي قابليت کي حد تک ان غير الہي حکومتوں کي سوچ ہے؟ تا کہ ہم يہ فرض کر سکيں کہ اگر افراد دلسوز ہوں اور خدمت کر سکتے ہيں- يا يہ کہ ان کي سوچ محدود ہے اور اگر وہ خدمت بھي کرنا چاہيں تو اسي حد تک خدمت کر سکتے ہيں"-
اسي طرح ايک اور جگہ کہتے ہيں:
" اب پارليمنٹ کو زيادہ بڑے اٹھانے چاہيں اور جو بلز پيش کئے جاتے ہيں يا خود جو قوانين بنانا چاہتي ہے ان ميں تيزي لائے اور سو فيصد اسلامي ہونے کا يقين کرے- اگر کوئي قانون، مشورہ، بل، غير اسلامي نکتے کا حامل ہو تو وہ اسلام اور خدا کے نزديک قابل قبول نہيں ہے"-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان