صحت مند سياسي روابط اور مطلوب سياسي معاشرے کي تشکيل
حکومت کا سرچشمہ اور اس کا مقصد
امام (رح) کے پاس امر و نہي حکومت کو عدالت سے نزديک کرتا ہے
امام (رح) : "عدالت" کے مفہوم کو اس کے وسيع عملي ميدان ميں تلاش کرني ہے
پس "عدالت" دوسري خوبيوں کے ساتھ نظارت کي نسبت رکھتي ہے اگرچہ عدالت بذات خود ايک خوبي شمار ہوتي ہے ليکن اگر يہ نظارت اچھے طريقے سے انجام پائے تو باقي خوبياں بھي اپني جگہ پر ٹھيک کام کريں گي- اوپر بيان کي گئي مثالوں کے علاوہ ہميں جان لينا چاہيئے کہ سخاوت، عفت اور شجاعت بہت اچھے کام ہيں جو اگر اپني جگہ پر استعمال نہ ہوں تو بہت سي دوسري مشکلات کے ظاہر ہونے کا باعث بن جائيں گے اور ان کا اپني جگہ پر قرار پانا ہي ايک قسم کي عدالت ہے- ان مطلب کو مد نظر رکتھے ہوئے جو سياسي تفکر سے زيادہ اخلاقي مسائل کے ساتھ تعلق رکھتے ہيں، امام خميني (رح) عدالت کو نہ صرف انسان کي اخلاقي فضيلتوں کا ايک حصہ سمجھتے ہيں بلکہ معتقد ہيں کہ انسانوں کے درميان عدالت کي پرورش اور اس کے پھيلاۆ کي صورت ميں ان کو "صحت مند سياسي روابط" اور مطلوب سياسي معاشرے کي تشکيل کے ليے آمادہ کيا جا سکتا ہے- کيونکہ انسان صرف اس صورت ميں کمال سے نزديک ہو سکتا ہے جب وہ اپني مختلف سرگرميوں ميں ہماہنگي برقرار کر سکے- يہ ہم آہنگي برقرار کرنے کے لئے محرکات کے طغيان اور مضر شخصي سرگرميوں کي روک تھام کرنا ہوگي ورنہ وہ اعلي مقام حاصل نہ ہوگا- انسان کو اس اعلي مقام تک پہنچنے کے لئے معاشرتي بندھنوں کا پابند ہونا پڑے گا جس کا نتيجہ محدوديت کو قبول کرنا اور مطلق آزادي سے صرف نظر کرنا ہے- ليکن اس محدوديت کا نتيجہ فائدے ميں ہے کيونکہ اس صورتحال ميں وہ معاشرے ميں دوسروں کے ساتھ مشترکہ زندگي بھي گزار سکتا ہے اور اپنے نفس کي خودخواہانہ بغاوتوں کا مقابلہ بھي کر سکتا ہے جو اس کي انفرادي ترقي کا لازمہ ہے-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان