امام (رح) : "عدالت" کے مفہوم کو اس کے وسيع عملي ميدان ميں تلاش کرني ہے
حکومت کا سرچشمہ اور اس کا مقصد
امام (رح) کے پاس امر و نہي حکومت کو عدالت سے نزديک کرتا ہے
لہذا امام خميني (رح) کے بنيادي نظريات ميں سے ايک يہ ہے کہ "عدالت" انساني فضائل و کمالات ميں سے ايک فضيلت ہے اور اس فرض کے ساتھ کہ انساني فضيلت ايک حقيقي کيفيت ہے جو تحقيق اور علمي جدوجہد کے ذريعے فضيلت کے مفہوم اور حقيقت کو کشف کرنا چاہيئے-
امام (رح) انساني فضيلت کي وضاحت کرتے ہوئے تين بنيادي عناصر کو بيان کرتے ہيں: عقل، شريعت اور عدالت- ان ميں سے کسي ايک صفت کا حاکل انسان ايک اچھا انسان ہے اور اگر کسي ميں يہ تينوں صفات جمع ہوجائيں تو وہ انسان کامل ہوگا- يہاں ہم ان تينوں صفات پر بحث کرنا نہيں چاہيئے بلکہ صرف آخري صفت يعني "عدالت" پر روشني ڈالنے پر ہي اکتفا کريں گے-
امام (رح) کي نظر ميں "عدالت" کے مفہوم کو اس کے وسيع عملي ميدان ميں تلاش کرنے کي ضرورت ہے- کيونکہ عدالت کا اپنا کوئي مخصوص اور مشخص عملي ميدان نہيں ہے- مثلا شجاعت، حکمت اور عدالت ہے-
امام (رح) کہتے ہيں:
شجاعت جو اچھے اخلاق کے اصولوں اور بنيادوں ميں سے ہے اور اچھي عادت ميں شمار ہوتي ہے افراط جسے"تہوار" کہتے ہيں اور جس کے معني يہ ہيں کہ جس موقع پر خوفزدہ ہونا مناسب ہو نہ ڈراجائے اور تفريط جسے "جبن" يا بزدلي کہتے ہيں اور جس کے معني يہ ہيں کہ ايسے موقع ڈرنا جب خوفزدہ ہونا سزاوار نہ ہو، کے درميان ايک متوسط راستے کا نام ہے- اسي طرح حکمت بھي دو، رذائل يعني "سفہ" جسے "جربزہ" بھي کہا گيا ہے اور اس کا معني يہ ہے کہ ايسے مواقع پر بھي غور و فکر سے کام ليا جائے جہاں زيادہ سوچنا پسنديدہ کام نہيں ہے اور "بلہ" يا حماقت يعني سوچنے سمجھنے کو مکمل طور پر ترک کردينا کے درميان ايک متوسط حالت کا نام ہے- اس طرح سے عفت اور سخاوت ہيں جو شرہ، خمود، اسراف اور بخل درمياني حالتوں کے نام ہيں"-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان