امام (رح) کے پاس امر و نہي حکومت کو عدالت سے نزديک کرتا ہے
حکومت کا سرچشمہ اور اس کا مقصد
بنابراين اسلامي حکومت کو محفوظ رکھنے اور اس کو ايک فرد يا گروہ کے ہاتھوں منحرف ہونے سے بچانے کے ليے بہترين راستہ يہ ہے کہ سياسي نظام اور آئين کو اس طريقے سے بنايا جائے کہ عدل پر مبني اقدار کي مدد سے حکومتي عناصر اور قوتوں کے درميان ايک تعادل ايجاد کياجائے تاکہ ہر شعبہ دوسرے شعبات پر نظارت کر سکے اور اسي وقت اس شعبے کي زير نظارت بھي قرار پائے- يہ وہي "امر و نہي" ہے جو حکومت کو عدالت سے نزديک کرتا ہے اور امام خميني (رح) اس کو ہر حکومت کي بنياد اور روح کے طور پر بيان کرتے ہيں-
"ملت کا ہر فرد يہ حق رکھتا ہے کہ سب لوگوں کے سامنے براہ راست حکومتي سربراہ سے سوال کرے اور اس پر تنقيد کر سکے اور اس حکمران کو بھي چاہيئے کہ وہ اسے اطمينان بخش جواب دے وگرنہ دوسري صورت ميں اگر وہ اپنے اسلامي وظائف کے خلاف عمل کرے تو خود بخود اپنے اس مقام سے معزول ہوجائے گا-"
يہ عبارت بہت واضح انداز ميں امام خميني (رح) کے افکار کو عينيت کو بيان کرتي ہے- يہاں پر ہم بلاشک ايک بڑي آرزو سے روبرو ہيں- ايسي آرزو جو وقت کي پيداوار نہيں ہے بلکہ ہدايت کے سياسي مکتب فرک کے تمام قائدين کي ثقافت اور سنت ميں پروان چڑھي ہے ليکن اس آرزو کے بيان کا طريقہ کسي ايسے شخص سے متعلق نہيں ہے جس کے افکار ميں خيال پردازي کا رنگ ہو بلکہ اس کے بيان ميں خاص سياسي، معاشرتي، طبيعي، قومي، مخصوص زماني شرائط اور حتي معاشرتي اداروں کے پيچيدہ مجموعے کي خصوصيات کو بھي مد نظر رکھا گيا ہے- ہميں نہ صرف اس بات کو قبول کرنا چاہيئے کہ سياسي آزادي کي آرزو کا تحقق بعض اداروں کے حصول پر منحصر ہے بلکہ يہ بھي قبول کرنا چاہيئے کہ خود يہي ادارے چاہے جتنے ہي مطلوب کيوں نہ ہوں، کسي قوم پر منطبق نہيں کيے جا سکتے- يہ ادارے فقط ايک قوم کي فطرت کي روشني ميں ان اداروں کي ترقي کي خاطر ان اداروں کي نوعيت کے بارے ميں کافي حد تک علم و دانش رکھنے کا نام ہے-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان