سياحت نامہ
سفرنامہ کي تيکنيکي صورتيں
اردو سفرنامے کي ابتدا
اردو سفرنامے کي اولين روايت
"عجائب فرنگ" (تاريخ يوسفي)
سياحت نامہ: نواب کريم خان 1839 بہادرشاہ ظفر کے سفير کي حيثيت لندن گئے- سياحت نامہ اسي دوران کي يادگار ہے- نواب کريم خان کي عادت تھي کہ روزانہ کے امور کو باقاعدہ سے درج کرليتے تھے- سياحت نامہ کو عبادت بريلوي نے شائع کرديا- سياحت نامہ کي نثر سادہ اور سليس ہے مطالب و معاني کو گرفت ميں لينے کي قدرت اس سادہ نثر ميں بھي موجود ہے-
نواب کريم خان اپني داخلي پريشاني کي وجہ سے لندن سے زيادہ کھل نہيں سکے- "سياحت نامہ" حالات سفر کو سامنے لانے کے بجائے ان کا معلومات نامہ بن گيا ہے اور ان کي سياسي سرگرميوں کو اور عمائدين سلطنت، وزرا اور حکما سے ان کي ملاقاتوں کا احوال تفضيل سے پيش کرتا ہے-
سيد فدا حسين: ميرٹھ کي انگريزي افواج ميں جمعدار کے عہدے پر فائز تھا- 1839 ميں انگريزوں نے کابل پر چڑھائي کے ليے جو مہم روانہ کي- فدا حسين اس مہم ميں شامل تھا- اس سفرنامے ميں اس نے ميرٹھ سے غزني اور واپسي تک کي داستان سفر، روزنامچے کے اسلوب ميں بيان کي ہے- يہ سفرنامہ "تاريخ افغانستان" کے نام سے 1852 ميں لکھا گيا- ڈاکٹر مرزا حسن بيگ نے لکھا ہے کہ يہ سفرنامہ داستاني انگ ليے ہوئے ہے- اس کا سفرنامہ کا کينوس محدود ہے اور يہ جنگي وقائع نگاري کا ايک غير مرصع نمونہ نظر آيا ہے-
* سفير اودھ : 1856 اودھ کي حکومت معذول کر دي گئي تو واجد علي شاہ نے مولوي مسيح الدين علوي کو سفير اودھ مقرر کيا اور دادرسي کے ليے اپني والدہ، بھائي اور ولي عہد سلطنت کے ساتھ انگلستان روانہ کيا-
مسيح الدين علوي 1856 کلکتہ سے انگلستان گئے اور تقريبا ساڑھے سات سال انگلستان ميں قيام کرنے کے بعد وطن کي طرف روانہ ہوئے دوران سفر انہيں مکہ مکرمہ ميں حاضري دينے کا خيال پيدا ہوا چنانچہ وہ حجاز مقدس چلے گئے- اس قديم کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا غلب حصہ مولوي صاحب کي سوانح عمري پر مشتمل ہے اور لندن ميں اس نے طويل قيام کے باوجود اس شہر کو سياح کي آنکھ سے نہيں ديکھا- اس کے نزديک سفر، دريافت نو کا وسيلہ نہيں بلکہ ايک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کا نام ہے-
وہ نام و نسب کے بيان ميں رطب اللسان نظر آتے ہيں ليکن حوادث سفر کو مناسب اہميت بھي نہيں ديتے-
وہ دربار اودھ پر تنقيد اور ملکہ برطانيہ کي تحسين کرتے ہيں تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنے سياسي مقاصد کے ساتھ مخلص نہيں تھے اور سياسي فضا بدل جانے کے بعد اپني ذاتي حيثيت کے استحکام ميں مصروف ہوگئے-
"سفير اودھ" کي اہميت يہ ہے کہ يہ سفرنامہ ايک ايسے دور ميں لکھا گيا جب سوانح اور سفرنامہ کي روايت مستحکم نہيں ہوئي تھي- سفر کي زيادہ سہولتيں ميسر نہيں تھيں اس سفرنامے نے مستقبل کے مصنفين کو اس صنف کي طرف متوجہ کرايا- ابتدائي دور کے سفرناموں ميں ايک تاريخي حيثيت رکھتا ہے-
شعبہ تحریر و پیشکش تبیان