آيت اللہ احمد جنّتي
آيت اللہ احمد جنّتي 3 اسفند ( ايراني مہينہ ) سن 1305 ہجري شمسي کو اصفہان سے تين کلوميٹر مغرب ميں واقع ايک گاۆ ں" لادان " ميں پيدا ہوۓ - آپ کے والد کا نام ملا ھاشم تھا اور وہ اپنے وقت کے ايک بڑے مذھبي عالم تھے - آپ کے والد محترم ہفتہ سے لے کر بدھ وار تک اصفہان ميں قيام کرتے اور اپنا سارا وقت مذھبي تعليمات کي تدريس ميں صرف کرتے اور ہفتے کے آخري ايام ميں اپنے گاؤ ں تشريف لے جاتے - ان کے گاۆ ں کے لوگوں کا پيشہ کھيتي باڑي اور مويشي پالنا تھا - معاشي طور پر پسماندہ ہونے کے باوجود بھي اس گاۆ ں کے لوگ اچھے اخلاق کے مالک تھے - اگر گاۆ ں ميں کوئي مسئلہ درپيش ہوتا يا لوگوں ميں کسي قسم کا کوئي باہمي اختلاف سامنے آتا تو اس کے حل کے ليۓ وہ آيت اللہ جنتي کے والد مرحوم سے رجوع کيا کرتے تھے - انہوں نے اپني عمر کے اختتام تک حوزہ علميہ اصفہان سے اپنا تعلق قائم رکھا اور وہاں پر تدريس کي ذمہ دارياں انجام ديتے رہے - اس درس گاہ سے حاجي آقا رحيم ارباب اور حاجي سيد علي نجف جيسے اعلي پايہ کے عالم فيض ياب ہوۓ - ان کا ايک ہي بيٹا تھا - آيت اللہ جنتي کي والدہ بھي پاک اور صبر والي خاتون تھيں - آپ کي والدہ محترمہ گھريلو کام کاج کے علاوہ قرآن اور بعض دوسري مذھبي کتب کي تدريس بھي کيا کرتيں تھيں - اس کے علاوہ وہ بعض مذھبي محفلوں کا بھي اہتمام کيا کرتيں تھيں - آپ کي والدہ نے اپني ساري زندگي صبر و شکر اور قناعت کے ساتھ بسر کي -
اس دور ميں آيت اللہ جنتي کے علاقے ميں مدرسہ نہيں تھا - آيت اللہ احمد جنّتي نے اپني ابتدائي تعليم اپنے والد محترم اور مرحوم سيد ابوالقاسم ھرندي سے حاصل کي - اس کے بعد وہ قم تشريف لے آۓ جہاں پر انہوں نے انگريزي زبان بھي سيکھي - انہوں نے عربي ادب کو بھي سيکھا - آيت اللہ جنتي نے بعض علوم کو مرحوم سيد محمد باقر ابطحي اور بعض کو الحاج شيخ احمد فياض سے حاصل کيا - آپ نے مرحوم شيخ علي مشکلاتي سے بھي بعض علوم کو سيکھا -
قم ميں قيام کے دوران انہوں نے " شرح لمعه " کو مرحوم شھيد صدوقي سے سيکھا اور بعض رسائل اور قوانين کو سيکھنے کے ليۓ مرحوم آيت اللہ بھاء الديني کے پاس گۓ - انہوں نے بعض مکاسب کتب کو مرحوم حاجي سيد محمد باقر طباطبايي بروجردي سے سيکھا اور کفايہ کي تعليم حاصل کرنے کے ليۓ وہ مرحوم حاجي شيخ عبدالجواد اصفہاني اور مرحوم مجاہدي کے پاس گۓ - انہوں نے بعض مکاسب کو مرحوم حاجي روح اللہ کمالوند سے بھي سيکھا -
( جاري ہے )
تحرير : سيد اسداللہ ارسلان
متعلقہ تحریریں:
شيخ مفيد کون ہيں ؟