• صارفین کی تعداد :
  • 2769
  • 12/18/2012
  • تاريخ :

اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت كے سلسلے ميں وضاحت

تجسم اعمال

اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت

انسان جتنا عالم نور سے ارتباط بڑھاتا چلاجاتا ہے اتنا ہي پردے اٹھتے چلے جاتے ہيں - اور اپنے اعمال، كردار، عقيدے اور رفتار كو اچھي صورتوں ميں ديكھتا ہے - اور خود كو منزل معراج پر پاتا ہے، ان مذكور مطالب سے دو حقيقت معلوم ہوتي ہے-

1. انسان كے اعمال اصلي اور حقيقي شمائل ميں پائے جاتے ہيں اور يہي انسان كي روح (جو حقيقي ہے) جسم مادي سے قطع تعلق كركے عالم برزخ ميں پہونچتي ہے اور جو كچھ اس كے نظام اور قوانين ہيں روح متحمل ہوتي ہے - انسان كے اعمال اسي كے قانون كے لحاظ سے مشكل و شمائل ميں رونما ہوں گے - يعني ہر عمل كي برزخي صورت انسان كي روح كے مطابق اور اسي كي ديگر خصوصيات كے ساتھ ظاہر ہوگي -

ہر عمل نيك كي برزخي صورت اسي كے موافق اور اچھي آئے گي اسي كے برعكس جتنا برا عمل ہوگا برزخي صورت اتني ہي بري اور انسان كے عادات كے مطابق ہوگي - مثال كے طور پر اگر كوئي انسان بدخلقي كے علاوہ رذيل بھي تھا تو اس كي برزخ ميں عمل كي صورت كئے كے مانند ہوگي يا كوئي انسان بدخلقي كے ساتھ شريف تھا تو اس كا برا فعل شير كي صورت ميں آئے گا - شہوات نفساني كے بھي مختلف العباد ہيں خصائل كے مختلف قسميں ہيں ان ميں كا ہر ايك عمل، كردار، رفتار اور عقيدے ( خواہ اچھے ہوں يا برے ) عالم برزخ ميں مختلف صورت و شكل ميں مجسم ہوگا يہ اس دنيا كے علاوہ ديگر عوالم يعني عالم تجرد، اسماء ميں بھي ہر عمل، عادت، رفتار اور عقيدے ان عوالم كے قوانين و دستورات كے مطابق مجسم ہوتے ہيں اور جتنا ان چيزوں سے دور ہوتا چلاجائے گااتنا ہي پردہ اٹھتا چلاجائے گا اور نظروں كے سامنے تصاوير آنے لگے گيں-

2. جہاں تك انسان كے سارے اخلاقي صفات، اعمال، كردار، اور اچھي رفتار كا مسئلہ ہے تو يہ حقيقت واقعيت (جو باطن ميں موجود ہے) سے قريب ہيں - يعني جس دن سے ہم نے اس دنيا ميں سخاوت كرنا شروع كرديا يہ پہلے بھي اچھي اور بہشت ميں جانے كے لئے ضامن ہے اسي كے مقابلہ ميں جس دن سے ہم نے برائي كرنا شروع كرديا جو روح كي بيماري كا نتيجہ ہے يہ چيز ہمارے ”‌ جہنم “ تك كھينچ لے جانے كے لئے كافي ہے - بعبارت ديگر -

انسان كا ہر عمل، كردار، اور رفتار كا سرا جنت كي طرف ہے يا جہنم كي طرف - كيونكہ ہر برائي كي جڑ جہنم ہے اور ہر اچھائي كي جڑ جنت ہے-

حضرت رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا :

جب ماہ شعبان كي پہلي تاريخ آتي ہے تو خداوند عالم جنت كے دروازے كھول ديتا ہے اور شجرہ طوبي جس كي پہلي شاخين اس دنيا ميں پھيلي ہوئي ہيں منادي ديتي ہيں كہ اے خدا كے بندو !ان شاخوں كو پكڑلو تا كہ جنت كے مستحق بن جاو - اسي طرح ايك اور ندا آتي ہے كہ درخت زقوم كي شاخوں كو نہ تھامنا (اور اس سے دور رہنا) ورنہ تمہيں جہنم ميں ڈھكيل ديں گے - پھر آنحضرت نے فرمايا :

قسم ہے اس ذات كي جس نے مجھے درجہ رسالت پر مبعوث كيا ہے -

در حقيقت اس روز برائي كرنا گويا درخت زقوم كي كسي ايك شاخ كو پكڑنا ہے پس وہ جہنم كي آگ ميں جلے گا اور اس كو اوندھے منھ اس ميں گراديا جائے گا -

بخدا قسم جس نے مجھے پيغمبر بنايا ہے كہ جس شخص نے واجبي نماز ميں تساہلي كي يا اس كو قضا كيا گويا اس نے درخت زقوم كي ايك شاخ كو پكڑليا ہے - جو فقير و غريب كي بد حالي كو ديكھنے كے بعد اس كي مدد نہ كرے گويا وہ ہلاك ہوا پھر ايك ايك برے اعمال كو بيان كيا پھر آسمان كي طرف سر اٹھاتو ہنس پڑے اور جب زمين كي طرف ديكھا تو چہرہ سرخ ہوگيا اس كے بعد اصحاب سے فرمايا -

اس ذات كي قسم جس نے مجھ (محمد) كو نبوت و رسالت پر فائز كيا ہے -

جب ميں نے شجرہ طوبي كي بلند ڈاليوں كو ديكھا تو ہر انسان كواپنے اپنے اعتبار سے اس كي كسي نہ كسي ڈالي كو پكڑا ہوا جو جنت كي طرف جارہے ہيں -

حتي زيد بن حارثہ كو شجرہ طوبي كي ساري ڈاليوں كو پكڑا ہوا ديكھا جس سے ہم خوش و مسرور ہوئے ليكن جب زمين كي طرف ديكھا تو خدا كي قسم جس نے مجھے نبي بناكر بھيجا ہے -

درخت زقوم كو بھيلاہو ديكھا كچھ اپني بد اعمالي كي بناء پر اس كي شاخوں كو تھامے ہوئے ہيں، جہنم ميں جارہے ہيں - حتي بعض منافقين كو بھي ديكھا جو درخت زقوم كي پوري شاخوں كو پكڑے ہوئے ہيں اور ان كو جہنم كے سب سے نچلے طبقے ميں ركھا گيا ہے جس سے بہت رنجيدہ ہو ا۔

مۆلف: محمد رضا كاشفي

مترجم: سيد كرار حسين رضوي گوپالپوري

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان