• صارفین کی تعداد :
  • 2508
  • 12/2/2012
  • تاريخ :

اخلاص کے معني

اخلاص کے معنی

  اخلاص سے مراد يہ ہے کہ انسان اپنے کام کو خدا کے لئے اور اپني ذمہ داري و تکاليف کي انجام دہي کي خاطر انجام دے- جس کا نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ انسان نفساني خواہشات ، مال و دولت کے حصول ، شہرت و عزت ، لالچ و حرص وغيرہ کے لئے کوئي کام نہيں کرتا - اخلاص ايک ايسي صفت ہے کہ اگر اس کي بنياد پر اقدام کيا جائے تو يہ تلوار کي طرح اپنے سامنے آنے والے ہر مانع کو دور کرتي جاتي ہے -

امام خميني کے اندر يہ صفت کمال کي حد تک تھي - آپ اکثر فرماتے تھے کہ اگر ميرا کوئي عزيز ترين فرد بھي عدل و انصاف کے خلاف کوئي قدم اٹھائے گا تو ميں اس سے بھي چشم پوشي نہيں کروں گا اور ايسا کيا بھي - حساس موقعوں پر وظيفہ کي انجام دہي کے ذريعہ دوسرے لوگوں کو بھي احساس دلايا - خلوت ميں ، جلوت ميں ، چھوٹا کام ہو يا بڑا ، آپ نے ہميشہ اخلاص کو اپني ذاتي زندگي ميں اپنايا - اور يہي وہ درس تھا جس کي بنا پر آپ کے شاگرد ، آپ کے چاہنے والے جوق در جوق سرحد پر دشمن سے جنگ کرنے دوڑے چلے جاتے تھے - يہي وہ درس تھا جس کي بنياد پر ايران ميں معجز ہ نما اسلامي انقلاب نمودار ہوا -

ايک بزرگ اہل عرفان و سلوک اپنے ايک مکتوب ميں تحرير فرماتے ہيں : اگر فرض کريں (بہ فرض محال )کہ رسول اکرم اپنے تمام امور کو ايک معين ہدف کے تحت انجام ديتے تھے اور آپ کا ہدف يہي ہوتا تھا کہ اپنے ان امور کو انجام کے مراحل تک پہنچا ديں اور پہنچا بھي ديا کرتے تھے مگر کسي اور شخص کي طرف سے يعني کسي اور کے نام سے - کيا اس صورت ميں کہا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ والہ وسلم اپنے اس فعل سے راضي نہيں ہوتے تھے ؟ کيا يہ فرماتے تھے کہ يہ فعل چونکہ دوسرے کي طرف سے انجام دے رہا ہوں لہذا انجام نہيں دوں گا ؟ يا نہيں ، بلکہ آپ کا ہدف اپنے امور کي انجام دہي تھي اور بس - قطع نظر اس سے کہ وہ فعل کس کے نام سے يا کس کي طرف سے انجام ديا جا رہا ہے - حقيقت يہي ہے کہ لکھنے والا صحيح ہے کيونکہ ايک مخلص شخص کي نگاہ ميں کسي فعل کي انجام دہي اہم ہوتي ہے- اس کا ذہن ”‌ من و تو “ سے ماوراء ہوتا ہے - وہ اس بات سے بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس فعل کا سہرا کس کے سر بندھے گا؟ ايسا شخص با اخلاص ہوتا ہے اور خدا پر کامل يقين رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا وند متعال يقينا اس کے فعل کا صلہ اس کو دے کر رہے گا کيونکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے: ( ان جندنا لھم الغالبون ) خدا کے اس لشکر ميں اکثر و بيشتر ميدان جنگ ميں شہيد ہو جاتے ہيں اور ظاہري اعتبار سے ختم ہو جاتے ہيں ليکن خدا وند عالم فرماتا ہے ”‌ ان جندنا لھم الغالبون “ يعني يہ لوگ مرنے کے بعد بھي غالب ہيں -

اخلاص: اہم ترين اسلحہ

اسلام ميں اصلاح دنيا کے لئے اصل و اصيل ، خود نفس انسان کي اصلاح کو بتايا گيا ہے - ہر مسئلے کي شروعات يہيں سے ہوتي ہے - قرآن کريم اپنے قوي اور محکم بازوں سے اوراق تاريخ پلٹنے والي قوم سے فرماتا ہے: ”‌ قوا انفسکم “ ( سورہ تحريم / 6 ) ”‌ عليکم انفسکم “ ( سورہ مائدہ / 105 ) يعني اپنا تزکيہ نفس کرو ، اپنے نفس کي اصلاح کرو - ”‌ قد افلح من زکيٰ ھا “ ( سورہ شمس / 9 ) اگر صدر اسلام ميں اسلامي معاشرہ انساني نفوس کے تزکيہ سے شروع نہ ہوا ہوتا اور اس ميں مناسب حد تک با اخلاص اور متقي افراد پيدا نہ ہو گئے ہوتے تو اسلام قطعاً اپني بنياديں مستحکم نہيں کر سکتا تھا - يہي مخلص اور متقي اور سچے مسلمان تھے جن کي بنياد پر اسلام دوسرے شرکائے مذاہب اور ممالک پر فاتح ہو کر تاريخ عالم ميں اپنا نام ثبت کر سکا ہے -

ہمارا اسلامي انقلاب بھي اس اخلاص ، تقوي اور اپنے ذاتي اور مادي مفادات سے اوپر اٹھ کر الہي اہداف کي انجام دہي جيسے وظيفے اور ذمہ داري کے احساس کي وجہ سے ہي رونما ہوا تھا - ايران عراق جنگ کے دوران ہمارا يہي اسلحہ ہمارے لئے کار گر ثابت ہوا تھا - ہمارے شہيد ، ہمارے جنگي مجروحين اور ان کے شہادت کے عميق جذبے نے ہي آج ہميں اتني بلندياں اور مراتب عطا کئے ہيں - ساري دنيا ميں آج ہماري عزت اور شرف انھيں خدا دوست شہداء اور مجروحين کي بنياد پر ہے اور بس -

بشکريہ الحسنين ڈاٹ کام

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

شيطان کي تيسري غلطي