• صارفین کی تعداد :
  • 2337
  • 11/26/2012
  • تاريخ :

انقلاب حسيني کي پيغام رساني

انقلاب حسینی کی پیغام رسانی

انقلاب حسيني کے دو باب ہيں : ايک جنگ وجہاد اور شہادت - دوسرا ان شہادتوں کا پيغام لوگوں تک پہنچانا- اب قيام امام حسين (ع) کے پيغامات طبيعي طورپر مختلف ملکوں تک پہچانے کيلئے کئي سا ل لگ جاتا؛ جس کي دليل يہ ہے کہ مدينہ والوں کو اہلبيت (ع) کے وارد ہونے سے پہلے واقعہ کربلا کا پتہ تک نہ تھا - اس طرح بني اميہ کہ تمام وسائل و ذرايع اپني اختيار ميں تھيں - سارے ممالک اور سارے عوام کو اپنے غلط پروپيگنڈے کے ذريعے اپني حقانيت اور امام حسين (ع) کو باغي ثابت کرسکتا تھا- اگرچہ انہوں نے اپني پوري طاقت استعمال کي کہ اپني جنايت اور ظلم وبربريت کو چھپائے اور اپنے مخالفين کو بے دين، دنيا پرست، قدرت طلب، فسادي کے طور پر پہچنوايا جائے- چنانچہ زياد نے حجر بن عدي اور ان کے دوستوں کے خلاف جھوٹے گواہ تيار کرکے ان پر کفر کا فتوي جاري کيا - اسي طرح ابن زياد اور يزيد نے امام حسين (ع) اور انکے ساتھيوں کے خلاف سوء تبليغات شروع کرکے امام (ع) کو دين اسلام سے خارج ، حکومت اسلا مي سے بغاوت اور معاشرے ميں فساد پيدا کرنے والے معرفي کرنا چاہا اور قيام حسيني (ع) کو بے رنگ اور کم اہميت بنانا چاہا -

ليکن اہلبيت کي اسيري اور زينب کبري (س) کے ايک خطبے نے ان کے سارے مکروہ عزائم کو خاک ميں ملا ديا ؛ اور پوري دنيا پرواضح کرديا؛ کہ يزيد اور اس کے حمايت کرنے والے راہ ضلالت اور گمراہي پر ہيں - اور جو کچھ ادعي کر رہے ہيں وہ سب جھوٹ پر مبني ہے -

 اور بالکل مختصر دنوں ميں ان کے سالہا سال کي کوششوں کو نابود کرديا - اور امام حسين (ع) کي مظلوميت، عدالت خواہي، حق طلبي، دين اسلام کي پاسداري اور ظلم ستيزي کو چند ہي دنوں ميں بہت سارے شہروں اور ملکوں پر واضح کرديا- يزيد اس عمل کے ذريعے لوگوں کو خوف اور وحشت ميں ڈالنا چاہتا تھا تاکہ حکومت کے خلاف کوئي سر اٹھانے کي جرات نہ کر سکے- ليکن تھوڑي ہي مدت کے بعد انقلاب حسيني نے مسلمانوں ميں ظالم حکومتوں کے خلاف قيام کرنے کي جرات پيدا کي -

چنانچہ اسيران اہلبيت (ع) شام سے واپسي سے پہلے ہي شاميوں نے يزيد اور آل يزيد پر لعن طعن کرنا شروع کيا - اور خود يزيد بھي مجبور ہوا کہ ان کيلئے اپنے شہيدوں پر ماتم اور گريہ کرنے کيلئے گھر خالي کرنا پڑا-

 يہاں سے معلوم ہوتا ہے فاتح کون تھا اور مغلوب کون؟ کيونکہ جيتے اور ہارنے کا فيصلہ جنگ وجدال کے بعد نتيجہ اور ہدف کو ديکھنا ہوتا ہے - ظاہرہے کہ امام حسين (ع) کا ہدف اسلام کو بچانا تھا اور بچ گيا - اور فاتح وہ ہے جس کي بات منوائي جائے وہ غالب اور جس پر بات کو تحميل کيا جائے اور اپنے کئے ہوئے اعمال کو کسي دوسرے کے اوپر ڈالے جيسا کہ يزيد نے کہا کہ امام حسين (ع) کو ميں نےنہيں بلکہ عبيد اللہ ابن زياد نے شہيد کيا ہے، وہ مغلوب ہے -

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع: قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ وَ قَدْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ اسْتَقْبَلَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَ قَالَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ مَنْ غَلَبَ وَ هُوَ يُغَطِّي رَأْسَهُ وَ هُوَ فِي الْمَحْمِلِ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ مَنْ غَلَبَ وَ دَخَلَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَأَذِّنْ ثُمَّ أَقِمْ-

امام صادق(ع) روايت کرتے ہيں کہ امام زين العابدين (ع) نے فرمايا : جب شام سے مدينہ کي طرف روانہ ہورہے تھے تو ابراہيم بن طلحہ بن عبيد اللہ ميرے نزديک آيا اور مذاق کرتے ہوئے کہا : کون جيت گيا؟

امام سجاد (ع) نے فرمايا : اگر جاننا چاہتے ہو کہ کون جيتے ہيں؛ تو نماز کا وقت آنے دو اور اذان و اقامت کہنے دو ، معلوم ہوجائے گا کہ کون جيتا اور کون ہارا؟ -1-

يزيد کا ہدف اسلام کو مٹانا تھا -اور امام حسين (ع) کا ہدف اسلام کا بچانا تھا - اور آج ہم ديکھ رہے ہيں کہ دنيا کے تمام اديان اور مذاہب پر دين مبين اسلام غالب اور معزز اور ہر دل عزيز نظر آرہا ہے - خصوصا انقلاب اسلامي کے بعد اسلام حقيقي سے لوگ آشنا اوراس کي طرف مائل ہورہے ہيں -اور يہ سب زينب کبري (س)کي مرہون منت ہے :

شبير کا پيغام نہ بڑھتا کبھي آگے

کي ہوتي نہ عابد نے اگر راہ نمائي

زينب کے کھلے بالوں نے سايہ کيا حق پر

عابد کے بندھے ہاتھوں نے کي عقد گشائي -2-

حوالہ جات:

1 - بحار ج45ص 177،ح27-

2 - پيام اعظمي، والقلم

مصنف:  غلام مرتضيٰ انصاري

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عزاداري کا کوئي ھدف اور مقصد هونا چاہئے