شيخ مفيد کا سچا خواب
شيخ مفيد کي تأليفات
حضرت شيخ مفيد کے اساتذہ اور شاگرد
شيخ مفيد کي جلاوطني اور گرفتاري
عوام کے بڑے علماء سے شيخ مفيد کے مناظرے
شيخ مفيد کا سچا خواب
شيخ مفيد نے خواب ديکھا کہ آپ بغداد کي مسجدِ کرخ ميں بيٹھے ہيں کہ اتنے ميں سيدہ فاطمةالزھراء سلام اللہ عليہا امام حسن اور امام حسين عليہما السلام کے ہاتھ پکڑ کر مسجد ميں تشريف فرما ہوئيں اور شيخ کے قريب پہنچ کر فرمايا: "يا شيخ عَلِّمھُما الفِقهَ" [يعني اے شيخ ان دو کو فقہ کي تعليم ديں]-
شيخ خواب سے جاگ اٹھے اور سوچنے لگے: "يہ کيا خواب تھا جو ميں نے ديکھا! ميں کون ہوتا ہوں امام حسن اور امام حسن عليہما السلام کو تعليم دينے والا؟!؛ حالانکہ خواب بھي سچا ہے کيونکہ ائمہ معصومين عليہم السلام کي زيارت کا خواب شيطاني خواب نہيں ہوتا"-
صبح ہوئي تو شيخ مسجد کرخ جاکر بيٹھ گئے اور کيا ديکھتے ہيں کہ ايک جليل القدر بيبي تشريف لائيں جن کا کنيزوں نے احاطہ کررکھا تھا اور دو صاحبزادوں کے ہاتھ ان کے ہاتھوں ميں تھے- وہ شيخ کے پاس آئيں اور کہا: "يا شيخ عَلِّمهما الفِقهَ"- شيخ کو اپنے رۆيائے صادقہ کي تعبير مل گئي تھي چنانچہ آپ نے دو سيد زادوں کي تعليم و تربيت کا بيڑا اٹھايا اور انہيں بہت زيادہ احترام ديا-
يہ دو سيدزادے سيد رضي المعروف "شريف" اور سيد مرتضي "المعروف "عَلَمُ الہدي" ہي تھے جو اپنے عصر کے نامور فقہاء بن کر ابھرے اور تا قيامت امر ہوگئے-
حق کس کي جانب ہے؟
نقل ہے کہ کسي مسئلے ميں شيخ مفيد اور سيد مرتضي کے درميان اختلاف واقع ہوا-
دونوں نے مسئلہ لکھ کر مولا اميرالمۆمنين علي عليہ السلام کي بارگاہ ميں ارسال کرنے کا فيصلہ کيا-
کچھ عرصہ بعد خط کا جواب آيا- خط سبز رنگ کے جوہر سے تحرير ہوا تھا اور اس پر صرف ايک جملہ ثبت تھا جس ميں خطاب بھي شيخ مفيد کو ہوا تھا اور وہ جملہ يہ تھا:
"انت شيخي و معتمدي و الحق مع ولدي علم الهدي" [يعني اے شيخ مفيد! آپ ميرے شيخ اور ميرے نزديک قابل اعتماد ہيں اور حق ميرے فرزند علم الہدي کي جانب ہے-"
شيخ کا سہوي فتوي اور غيب سے عنايت خاص
ايک ديہاتي مرد شيخ مفيد کي خدمت ميں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا: ايک حاملہ عورت کا انتقال ہوا ہے جبکہ اس کے پيٹ ميں بچہ زندہ ہے؛ کيا ہم اس کا پيٹ چاک کرکے بچہ نکال لائيں يا اس کو بچے کے ساتھ ہي دفن کريں؟"-
شيخ نے فرمايا: "مرحومہ کو حمل کے ہمراہ ہي دفنا ديں"-
ديہاتي مرد مسئلہ سن کر واپس چلا گيا- بيچ راستے ايک سوار اس کے تعاقب ميں آيا اور کہا: اے مرد! شيخ نے فرمايا ہے کہ اس عورت کا پيٹ چاک کريں اور بچہ نکال کر عورت کو دفن کريں-
وہ مرد اپنے گاۆں پہنچا اور شيخ کا حکم لوگوں تک پہنچايا اور ماں کے پيٹ سے بچے کو نکال ديا گيا اور ماں کو دفن کيا گيا-
کچھ عرص بعد بچے کا والد شيخ کي خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا: يا شيخ آپ نے ہمارے بھيجے ہوئے آدمي کے پيچھے اپنا نمائندہ بھيج کر در حقيقت ميرے بچے کو حتمي موت سے نجات دلائي اور ميں اسي سلسلے ميں آپ کا شکريہ ادا کرنے حاضر ہوا ہوں-
شيخ نے فرمايا: ميں ني کسي کو بھي اس مرد کي پيچھے نہيں بھيجا اور يقيناً وہ سوار امام زمانہ (عج) تھے-
شيخ نے اس کے بعد عہد کيا کہ فتوي نہيں ديں گے اور مسلمانوں کے امور ميں مداخلت نہيں کريں گے؛ کہيں ايسا نہ ہو کہ ان کا فتوي کسي مسلمان کي موت کے اسباب فراہم کرے- (1)
مگر امام زمانہ (عج) جنہوں نے شيخ کے فتوے کي اصلاح کے لئے خود ہي اقدام کيا تھا اور شيخ کي جانب سے صحيح شرعي حکم کا ابلاغ فرمايا تھا؛ شيخ کي طرف سے فتوي نہ ديني کے عہد پر شيخ کے نام خط ميں لکھتے ہيں: "يا شيخ! مِنْکَ الْخَطاء وَ مِنّا التَّسْديد" اے شيخ! [فتوي ديا کريں اور اگر] آپ سے غلطي ہوجائے تو ہم اس کي تصحيح کريں گے-
چنانچہ امام معصوم عليہ السلام کا حکم پا کر شيخ مسند افتاء پر دوبارہ رونق افروز ہوئے-
نقل ہوا ہے کہ شيخ مفيد رحمةاللہ عليہ تيس سال تک شيعيان عصر کے مرجع تقليد تھے اور ان تيس برسوں ميں ان کے لئے امام زمانہ عجل اللہ تعالي فَرَجَہ الشريف کي جانب سے 30 خطوط جاري ہوئے جن ميں شيخ کو يوں مورد خطاب قرار ديا جاتا رہا:
"للاخ الاعز السديد الشيخ المفيد"
يعني ميرے عزيزترين اور استوار ترين بھائي "شيخ مفيد" کے نام
مأخذ:
(داستانہايي از زندگي علماء، ـ محمدتقي صرفي ـ دفتر نشر برگزيدہ قم-
(آخري داستان ميں ديگر مآخذ سے بھي استفادہ کيا گيا)-
1. کيا بات ہے اس مرجع و مجتہد و عالم دين کي ـ جو مفيد کا لقب سني علماء سے پاچکے اور سني علماء کو بھي فقہ و اصول پڑھاتے رہے ہيں ـ اس طرح کسي ايک ممکنہ موت ميں ملوث ہونے سے بچنے کے لئے افتاء اور معنوي حکمراني کو بآساني خيرباد کہتے ہيں اور کيا بات ہے ان لوگوں کي جنہيں اپني نماز کے ارکان اور نماز کے مفہوم تک کا تو علم نہيں ہے مگر وہ سينکڑوں اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قتل کے فتوے ديتے ہيں!!
ترجمہ از: ف-ح-مہدوي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان