• صارفین کی تعداد :
  • 4373
  • 11/26/2012
  • تاريخ :

عوام کے بڑے علماء سے شيخ مفيد کے مناظرے

شیخ مفید کے مناظرے

شيخ مفيد شيعہ دانشمندوں کي نظر ميں

شيخ مفيد کي  تأليفات

حضرت شيخ مفيد کے اساتذہ اور شاگرد

شيخ مفيد کي جلاوطني اور گرفتاري

اس دور ميں بغداد شھر علم و ادب کا مرکز مانا جاتا تھا  جہاں مختلف فقہ کے ناطق  آباد تھے - اھل سنت مذھب کے پيروکار کہ  جو علم کلام کي رو سے انہيں " معتزلي "  اور " اشعري "  کہتے تھے ،  عام معاشرے ميں اور کبھي خليفہ  کے حضور مجالس کرتے اور ان ميں سے ہر ايک اپنے پروگرام کو ثابت کرنے کے ليۓ حجتيں  اور دلائل پيش کرتا  - شيخ مفيد کي آمد سے قبل شيعہ علماء  کي ان محافل تک رسائي نہيں تھي  ليکن جب اس دور ميں شيخ مفيد کي صورت ميں يہ روشن ستارہ نمودار ہوا تو نہ صرف  شيعہ علماء ان کے جامعہ ميں شريک ہونے لگے بلکہ  شيخ مفيد و ابن معلم  وہ واحد عالم تھے جو اپنے علم کے زور پر ان سب پر حاوي ہو گۓ -

شيخ مفيد کے ايک ھم عصر  بغدادي خطيب سے نقل ہوا ہے کہ " وہ اگر چاہتا تو ثابت کر ديتا کہ  لکڑي کا ستون سونے کا ہے " ! علي بن عيسي رماني و قاضي ابوبكر باقلاني قاضي القضاة بغداد، فاضل كتبي و ابوعمرو شطوي و ابوحامد اسفرائني شافعي  قاضي عبد الجبار معتزلي  اور دوسرے بہت سے  بڑے علماء تھے جن کے ساتھ حضرت شيخ مفيد  امامت اور اصول عقائد  پر بحث کرتے تھے  اور انہيں ملزم و محکوم بنا ديتے -

 ان کے مناظروں کي داستانيں بہت ہي شيريں   اور پڑھنے والي ہيں -  سيد مرتضي جو کہ شيخ مفيد کے ايک بڑے شاگرد تھے  ، اس شاگرد نے شيخ مفيد کے مناظروں کي داستانوں کو ايک کتاب کي شکل ميں جمع کيا - ان ميں سے ايک داستان کو ہم نمونے کے طور پر  پيش کرتے ہيں -

کتاب " مجموعه ورّام" ميں لکھتا ہے "  مفيد حقيقت ميں " عکبرا " سے ہے - بچپن ميں وہ اپنے والد کے ہمراہ بغداد آيا اور  ابوعبداللہ المعروف " جعل " سے انہوں نے پڑھنا شروع کيا -  اس کے بعد وہ " ابوياسر " کي مجلس ميں چلے گۓ جو دروازہ خراسان  ميں پڑھاتے تھے - جب ابوياسر نے شيخ مفيد کي بحث اور سوالات کو ديکھا تو اس نے اسے   اس وقت کے ايک بڑے عالم " علي بن عيسي رمّاني "  کے  بارے ميں بتايا اور شيخ مفيد سے کہا کہ تم اس عالم کے پاس کيوں نہيں جاتے ہو ؟ شيخ مفيد نے جواب ديا کہ ميں اسے نہيں جانتا ہوں اور کسي ايسے فرد کو بھي نہيں  جانتا ہوں جو مجھے اس سے ملوا دے -  ابوياسر نے اپنے ايک شاگرد کو اس کے ساتھ بھيجا جو اسے لے کر رماني کے پاس گيا - اس وقت رماني کي مجلس فضلا  اور دانشمندوں سے بھري ہوئي تھي اس ليۓ مفيد آخري صف ميں بيٹھ گيا اور جب محفل سے لوگ اٹھ کر چلے گۓ تو وہ نزديک گۓ -  اسي اثنا ميں اھل بصرہ کا  ايک آدمي آيا اور اس نے رماني سے کہا کہ حديث غدير کے بارے ميں آپ کا کيا خيال ہے  کہ ( شيعوں کے عقيد ہ کے مطابق حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت علي عليہ السلام کو فورا اپنا جانشين مقرر کر ديا )  اور داستان غار ( سني عقيدے کے مطابق ابوبکر کي خلافت کي دليل ہے " ) ؟ رماني نے کہا کہ داستان غار  ايک مسلم  اور معقول امر ہے اور حديث غدير روايت و منقول ہے اور جو کچھ عقلمندي اور مسلم امر سے  استفادہ ہوتا ہے وہ روايت سے مراد نہيں ليا جا سکتا -  وہ بصري مرد خاموش ہو گيا اور اٹھ کر چلا گيا -  اسي وقت شيخ مفيد نے خود کو رماني کے نزديک کيا اور کہا : مجھے آپ سے ايک سوال کرنا ہے -  جب سوال کرنے کي اجازت ملي تو شيخ مفيد نے کہا : آّپ اس کے بارے ميں کيا کہيں گے جو  ايک عادل امام کي بات نہ مانے اور اس کے ساتھ جنگ کرے ؟ رماني نے کہا : وہ کافر ہے ، بعد ميں کہا کہ نہيں وہ فاسق ہے - شيخ مفيد نے پوچھا "  اميرالمۆمنين حضرت علي ابن طالب عليہ السلام کي امامت کے بارے ميں کيا کہيں گے ؟  رماني نے جواب ديا کہ وہ امام ہے - شيخ  مفيد نے پوچھا کہ طلحہ و زبير کے بارے ميں کيا کہيں گے جو جنگ جمل ميں اميرالمۆمنين کے خلاف تھے  ؟ رماني نے کہا : انہوں نے اپنے اس عمل سے توبہ کر لي -

شيخ مفيد نے کہا کہ جناب استاد !  داستان جنگ جمل  قابل فہم اور مسلم امر ہے اور طلحہ و زبير کي توبہ ايک روايت ہے -  رماني جب اس موضوع پر پوري طرح متوجہ ہوا تو پوچھا کہ جب اس بصري مرد نے مجھ سے سوال کيا تو کيا تم يہاں تھے ؟ شيخ مفيد نے جواب ديا کہ جي ہاں ! اس پر استاد نے جواب ديا کہ  تمہاري يہ بات ميري بات سے بہتر ہے -  پھر اس نے پوچھا کہ تم کون ہو  اور اس شہر ميں کس عالم کے پاس تعليم  حاصل کر رہے ہو ؟  شيخ مفيد نے جواب ديا کہ شيخ ابو عبداللہ جعل کے پاس -  رماني نے کہا کہ بيٹھ جاۆ اور ميرے واپس آنے کا انتظار کرو - اس کے بعد وہ گھر  کے اندر داخل ہو گيا اور کچھ دير کے بعد واپس آيا اور شيخ مفيد کو ايک بند خط ديا اور کہا کہ اس خط کو اپنے استاد کو دے دينا -  مفيد نے خط کو لا کر استاد کے حوالے کر ديا -  استاد نے خط کو کھولا اور پڑھنا شروع کر ديا  اور اسے پڑھنے کے دوران ہنسنا شروع کر ديا - خط پڑھنے کے بعد  استاد نے کہا کہ  رماني نے تمہارے اور اس کے درميان ہونے والے ماجرے کا ذکر کيا ہے اور تمہاري سفارش کي ہے اور تمہيں " مفيد " کا لقب ديا ہے  - (1 )

حوالہ جات :

1-  ص 234.

شعبۂ تحرير وپيشکش تبيان