خواجہ نصير الدين طوسي کي رحلت پدر
خواجہ نصير الدين طوسي زمانہ تحصيل علم و اساتذہ
مولد و ولادت خواجہ نصير الدين طوسي
کچھ ہي دنوں پہلے خواجہ نصير نے خوشي خوشي روحانيت کا مقدس لباس زيب تن کيا تھا اور نصير الدين کا لقب پايا تھا اس کي ياد ابھي محو نہيں ہوئي تھي اور وہ طوس ہي ميں تھے کہ اچانک ان کے پدر نامدار بيمار پڑ گئے اور روز بروز ان کي حالت خراب ہونے لگي- اہل خانہ نے جتني بھي کوشش دوا و علاج ميں کي وہ مفيد نہ ہوئي اور آخر کار جاڑوں کي ايک سرد رات ميں وجيہ الدين نے اپنے عزيز و اقربا کو پاس بلايا اور ہر ايک کو وصيتيں کر کے ہميشہ کے لئے سب کو خدا حافظ کہا اور خواجہ نصير کي روح کو غم و اندوہ سے بھر ديا- خواجہ نصير الدين جو جلد ہي وطن سے ہجرت کے خيال ميں تھے اب پہلے سے زيادہ سہارے و امداد کے محتاج ہو گئے ليکن مقدر ميں تو يہ تھا کہ ايک طرف باپ کي موت اور دوسري طرف ترک وطن ان کو مضبوط کر کے آئندہ کے سخت حادثات سے مقابلہ کے لئے توانا کر دے-
انہوں نے خود ان ايام کي ياد ميں لکھا ہے:
’’ميرے باپ جو جہانديدہ و تجربہ کار تھے انہوں نے مجھے علوم و فنون کي تحصيل اور بزرگان مذاہب کے اقوال و نوشتوں کو سننے و پڑھنے کي ترغيب دلائي يہاں تک کہ افضل الدين کا شي کے شاگردوں ميں سے ايک بزرگ کمال الدين محمد حاسب ہمارے شہر ميں کچھ دنوں کے لئے آئے جو حکمت و فلسفہ خصوصاً علم رياضي ميں مہارت نامہ رکھتے تھے اگرچہ ميرے والد سے ان کي گہري آشنائي نہيں تھي پھر بھي انہوں نے مجھے حکم ديا کہ ان سے استفادہ کرو اور ميں ان کي خدمت ميں حاضر ہو کر فن رياضي کي تحصيل ميں مشغول ہو گيا- پھر وہ حضرت طوس چھوڑ کر چلے گئے اور ميرے باپ کي وفات بھي ہو گئي مگر ميں نے اپنے باپ کي وصيت کے مطابق مسافرت اختيار کر لي- چنانچہ جہاں جہاں کسي فن کے استاد سے ملاقات ہوتي، ميں وہيں ٹھہر جاتا اور ان سے استفادہ کرتا تھا مگر چونکہ ميرا باطني رجحان حق و باطل ميں تميز پيدا کرنے کا تھا، اس لئے کلام و حکمت جيسے علوم کي جستجو ميں لگ گيا-‘‘
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان