• صارفین کی تعداد :
  • 3301
  • 11/11/2012
  • تاريخ :

امام رح کي نظر ميں اسلامي حکومت "مشروطہ" ہے

ولی فقیہ

بہر حال شيعہ فقہا ميں سے کسي ايسے فقيہ کا وجود ہونا جو ولايت کو حتي محدود معنوں ميں بھي قبول نہ کرتا ہو، بعيد ہے-

تاريخ ميں موجود فقہا کو 2 گروہوں ميں تقسيم کيا جا سکتا ہے- ايک وہ گروہ جو محدود اور مقيد ولايت کا قائل تھا اور دوسرا وہ جو مطلقہ ولايت پر اعتقاد رکھتا ہے- امام رح ايسے گروہ ميں شامل ہيں جنہوں نے اپني سياسي، فقہي فعاليت کے آغاز سے بھي مطلقہ ولايت پر اعتقاد رکھتے تھے- کيونکہ امام خميني رح نے حکومت کي تشکيل سے کئي سال قبل، مطلقہ اور عامہ کے مفہوم کا اپنے آثار ميں استعمال کيا ہے:

"بيان کردہ مطالب کا نتيجہ يہ ہے کہ جو کچھ بھي معصوم کے لئے ثابت ہے وہ فقيہ کے لئے بھي ثابت ہے مگر يہ کہ يہ بات ثابت ہو جائے کہ ان کي ولايت ان کے اختيارات کي وجہ سے نہيں ہے بلکہ ان کي ذاتي شرافت اور شخصيت کي بلندي کي وجہ سے ہے کہ وہ اختيارات، ولايت اور حکومت کي خاطر ہيں ليکن امام ع معصوم سے مخصوص ہيں اور معصوم سے غير معصوم کو منتقل نہيں ہو سکتے- جيسا کہ غير دفاعي جہاد ميں ايسا ہي ہے اگر چہ وہاں پر بھي بحث موجود ہے"-

مگر يہي ولايت امام رح کي معاشرتي سياست ميں محدود، مقيد اور مشروط بيان کي گئي ہے- دوسرے الفاظ ميں امام رح کي نظر ميں اسلامي حکومت "مشروطہ" ہے-

" مشروطہ اس شرط پر کہ حکما حکومت کو چلانے کے ليے کچھ شرائط کے پابند ہيں جو قرآن کريم اور احاديث ميں مشخص کي گئي ہيں- يہ شرائط وہي قوانين و احکام ہيں کہ جن کي پابندي لازم ہے- اس رو سے اسلامي حکومت در اصل ايک الہي اور قانوني حکومت ہے"-

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

فقيہ کي ولايت(2)