کثرت مہر کے نقصانات
جہيز اور خانہ تباہي
جہيز کے بارے ميں ايک غلط فہمي کا ازالہ
جہيز کي تاريخ کا سياہ ورق
نکاح کے بدلے مال دينا اور لينا کيسا ہے
جہيز کي ابتدا اور اس کے احکام
اسلام، جہيز اور سماج
بسا اوقات جہيز ميں بھاري بھرکم تقاضوں کے پيش نظر مہر ميں ايک خطير رقم کي فرمائش معاشرہ ميں سخت خسران کا باعث بنتي ہے- اس کي وجہ سے جہاں سماج ميں بے رہ روي و بد اخلاقي کو فروغ ملتا ہے وہيں اس کا نتيجہ شوہر و بيوي سميت دو خاندانوں کي خانماں بربادي کي شکل ميں ابھر کر سامنے آتا ہے- اسلام نے مياں بيوي کے درميان مزاج کي عدم موافقت سے در آئي پريشانيوں سے نجات پانے کے ليے مرد کو جو طلاق کا زريں اصول عطا کيا ہے زيادتي مہر اس راہ ميں بہت بڑي رکاوٹ بن جاتي ہے-
انساني زندگي ميں کبھي کبھي ايسے موڑ بھي آ جاتے ہيں جہاں مرد کے ليے طلاق کا راستہ اختيار کرنا ناگزير ہو جاتا ہے مثلاً زوجين کے مابين مزاج کي عدم موافقت، يا پھر بيوي بد چلن و بد اخلاق ہو اور با رہا سمجھانے کے باوجود بھي اپنے معمولات ميں سدھار نہ لائے وغيرہ وغيرہ- ايسے حالات ميں بھي مرد ذہني اور جسماني اذيتوں کو برداشت کرتے رہتا ہے اور اپنے ماتھے کي آنکھوں سے اپني عزت کي رسوائي کا تماشہ ديکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے- محض يہ سوچ کر چاہتے ہوئے بھي اس عورت سے چھٹکارا حاصل نہيں کر پاتا ہے کہ اگر طلاق ديا تو وہ اور اس کے گھر والے مہر کا مطالبہ کر کے پريشان کريں گے، جس کا ادا کرنا طاقت سے دور کي بات ہے- اس طرح بدمزاج عورت اپنے شوہر کے اخلاقي دباۆ کے قطع نظر بر سر عام اپني عفت و حيا کا سودا کرتي پھرتي ہے اور مرد يہ سب ديکھ کر بھي کچھ نہيں کر پاتا- ايک مقيد پنچھي کي طرح محض پھڑپھڑا کر صبر و تحمل کا راستہ اختيار کر ليتا ہے- جس کي وجہ سے مياں بيوي کے درميان تلخياں بڑھ جاتي ہيں اور ايک پر مسرت زندگي بادِ خزاں کي نذر ہو جاتي ہے- اگر کوئي با غيرت انسان اس طرح کي بد چلن عورت سے نجات حاصل کرنے کے ليے عزم مصمم کرتا ہے تو مہر کي اس خطير رقم کو ادا کرنے ميں اپني ہر کوشش صرف کر ديتا ہے پھر نوبت مفلسي اور نان شبينہ کي محتاجگي تک آ پہنچتي ہے- جس کا حاصل خانہ بربادي کے سوا کچھ نہيں ہوتا-
آج کے انسان حرص و نفس کے بہکاوے ميں آ کر شادي جيسے مقدس بندھن کو طرح طرح کي مصيبتوں ميں گرفتار کر کے تباہي و بربادي کے کس موڑ پر لا چھوڑا ہے-
تحرير: صابر رہبر مصباحي
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان