• صارفین کی تعداد :
  • 2868
  • 10/3/2012
  • تاريخ :

ظہور  کي حتمي علامات

امام زمانہ

بعض علامتيں حتمي ہيں جن کا وقوع بہرحال ضروري ہے اور ان کے بغير ظہور کا امکان نہيں ہے- اور بعض غير حتمي ہيں جن کے بعد ظہور ہو بھي سکتا ہے اور نہيں بھي ہو سکتا ہے- يعني اس امر کا واضح امکان موجود ہے کہ ان علامات کا ظہور نہ ہو اور حضرت کا ظہور ہو جائے اور اس امر کا بھي امکان ہے کہ ان سب کا ظہور ہو جائے اور اس کے بعد بھي حضرت کے ظہور ميں تاخير ہو-

 اس بات کی وضاحت سے پہلے اس امر کي طرف اشارہ ضروري ہے کہ ان روايات کا صدور آج سے سيکڑوں سال پہلے ہوا ہے اور ان کے مخاطب اس دور کے افراد تھے اور ان کے متعلقات کا تعلق سيکڑوں سال بعد کے واقعات سے تھا جن کا سابقہ اس دور کے افراد سے ہوگا اور اس بنا پر يہ طے کرنا تقريباً ناممکن ہے کہ روايات ميں استعمال ہونے والے الفاظ سے مراد کيا ہے اور يہ الفاظ اپنے لغوي معاني ميں استعمال ہوئے ہيں يا ان ميں کسي استعارہ اور کنايہ سے کام ليا گيا ہے-

اگر روايات کا تعلق احکام سے ہوتا تو يہ کہا جا سکتا تھا کہ احکام کے بيان ميں ابہام و اجمال بلاغت کے خلاف اور مقصد کے منافي ہے ليکن مشکل يہ ہے کہ روايات کا تعلق احکام سے نہيں بلکہ واقع ہونے والے حادثات سے ہے اور ان کي تشريح کي کوئي ذمہ داري بيانکرنے والے پرنہيں ہے بلکہ شايد مصلحت اجمال اور ابہام ہي کي متقاضي ہو کہ ہر دور کا انسان اپنے ذہن کے اعتبار سے معاني طے کرے اور اس معني کے واقع ہوتے ہي ظہور امام کے استقبال کے ليے تيار ہو جائے ورنہ اگر واضح طور پر علامات کا ذکر کر ديا گيا اور انسان نے سمجھ ليا کہ ابھي علامات کا ظہور نہيں ہوا ہے تو ظہور امام کي طرف سے مطمئن ہو کر مزيد بدعملي ميں مبتلا ہو جائے گا-

يہ سوال ضرور رہ جاتا ہے کہ پھر اس قسم کے علامات کے بيان کرنے کي ضرورت ہي کيا تھي؟--- ليکن اس کا بالکل واضہ سا جواب يہ ہے کہ معصومين نے جب بھي ان آنے والے واقعات کا اشارہ ديا اور فرمايا کہ ايک دور آنے والا ہے جب دنيا ظلم و جور سے بھر جائے گي ليکن يہ دنيا کا اختتام نہ ہوگا بلکہ اس کے بعد ايک قائم آل محمد کا ظہور ہوگا جو عالمي حالات کي اصلاح کرے گا اور ظلم و جور سے بھري ہوئي دنيا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، تو قوم کے ذہن ميں دو متضاد تصورات پيدا ہوئے- ايک طرف ظلم و ستم کا حال سن کر مايوسي اور اضطراب کي کيفيت پيدا ہوئي اور دوسري طرف ظہورِ امام کي خوش خبري سن کر سکون و اطمينان کا امکان پيدا ہوا تو فطري طور پر يہ سوال ناگزير ہوگيا کہ ايسے بدترين حالات تو ہم آج بھي ديکھ رہے ہيں- بني اميہ اور بني عباس کے مظالم تو آج بھي نگاہ کے سامنے ہيں اور ابھي دنيا ظلم و جور سے مملو نہيں ہوئي ہے تو جب ظلم و جور سے بھر جائے گي تو اس وقت دنيا کا کيا عالم ہوگا اور اس کے بعد اس اضطراب کا سکون اور اس بے چيني کا اطمينان کب ميسر ہوگا اس کے حالات علامات کا معلوم ہونا ضروري ہے تاکہ مظلوم و ستم رسيدہ اور بے کس و بے نوا کو اس حسِين مستقبل کے تصور سے کچھ تو اطمينان حاصل ہو اور ائمہ معصومين کي بھي ذمہ داري تھي کہ علامات کو ايسے کنايہ کے پيرايہ ميں بيان کريں کہ ہر دور کا مظلوم سکون و اطمينان کو قريب تر سمجھ سکے اور اس کے ليے اطمينان کا راستہ نکل سکے ورنہ بے شمار صاحبانِ ايمان مايوسي کا شکار ہو جائيں گے اور رحمت ِ خدا سے مايوسي خود بھي ايک طرح کا کفر اور ضلال مبين ہے-

اس مختصر سي تمہيد کے بعد اصل مقصد کا تذکرہ کيا جا رہا ہے جس کا خلاصہ يہ ہے کہ علماءِ اعلام نے سات قسم کي علامات کو حتمي قرار ديا ہے:

1- خروج دجّال

جس کا تذکرہ تمام عالم اسلام کي کتب احاديث ميں پايا جاتا ہے اور اس کي طرح طرح کي صفات کا بھي تذکرہ کيا گيا ہے کہ گدھے پر سوار ہوگا- ايک آنکھ سے کانا ہوگا، دوسري آنکھ پيشاني پر ہوگي، انتہائي درجہ کا جادوگر ہوگا اور لوگوں کو بہترين نعمتوں کي ترغيب دے گا- اس کے لشکر ميں ہر طرح کے ناچ گانے کا ساز و سامان ہوگا- وہ مختلف علاقوں کا دورہ کرکے لشکر جمع کرے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا، يہاں تک کہ حضرت کا ظہور ہوگا اور آپ براہِ راست يا آپ کي رکاب ميں حضرت عيسيٰ بن مريم اسے فنا کر ديں گے-

ان روايات سے تو بظاہر يہي معلو م ہوتا ہے کہ يہ کسي انسان کا تذکرہ ہے ليکن چونکہ دجّال خود ايک صفت ہے اور اس کے معني مکار اور فريب کار کے ہيں اس ليے بہت سے علماء نے اس کے کنائي معني مراد ليے ہيں اور ان کا خيال ہے کہ اس سے مراد وہ مکار اور فريب کار حکومتيں ہيں جن کے ساز و سامان دجّال والے ہيں اور جنہوں نے ساري دنيا کو مسحور کر رکھا ہے اور ان کي نظر سرمايہ داري يا مزدوري پر ہے کہ ايک آنکھ سے ديکھتے ہيں اور ايک آنکھ کو بند کر ليا ہے اور ديکھنے والي آنکھ کو اپني پيشاني پر اتنا نماياں کر ليا ہے کہ ہر شخص صرف اس کي چمک دمک ديکھ رہا ہے اور ان کي سواري کے ليے بے شمار انسان موجود ہيں جنہيں قرآن حکيم کي زبان ميں گدھا ہي کہا گيا ہے کہ گويا ايک پورا ”‌خر صفت“ سماج ہے جس کي پشت پر سوار ہو کر اپنے دجل و فريب کي ترويج کر رہے ہيں- واللّٰہ اعلم بالصواب-

2- نداءِ آسماني

اس سلسلہ ميں روايات ميں مختلف آسماني آوازوں کا تذکرہ کيا گيا ہے- ايک سلسلہ اصوات ماہِ رجب ميں ہے جس ميں پہلي آواز ہوگي: ”‌ألا لعنة اللّٰہ علي الظالمين“ دوسري آواز ہوگي ”‌ازفة الآزفة“ اور تيسري آواز قرص آفتاب سے بلند ہوگي کہ امير المومنين دوبارہ دنيا ميں انتقام کے ليے آرہے ہيں-

دوسرا سلسلہ ماہِ مبارک رمضان ميں ہوگا جہاں 23 رمضان کو ظہور کي خوش خبري کا اعلان کيا جائے گا-

اور تيسرا سلسلہ وقت ظہور قائم ہوگا جب قرص آفتاب سے حضرت کے مکہ مکرمہ سے ظہور کا اعلان ہوگا اور پورے شجرہ نسب کے ساتھ اعلان ہوگا اور اس اعلان کو شرق و غرب عالم ميں سنا جائے گا جس کے بعد صاحبانِ ايمان آپ کي بيعت اور نصرت کے ليے دوڑ پڑيں گے، اور آپ کے مقابلہ ميں دوسري شيطاني آواز بھي بلند ہوگي جو مثل جنگ احد بہت سے مسلمانوں کو گمراہ کر دے گي-

3- خروج سفياني

اس شخص کا نام عثمان بن عنبہ ہوگا اور يہ يزيد بن معاويہ کي اولاد ميں سے ہوگا- پہلے دمشق، حمص، فلسطين، اردن اور قنسرين پر حکومت قائم کرے گا اس کے بعد مختلف اطراف ميں لشکر روانہ کرے گا جس کا ايک حصہ بغداد کي طرف جائے گا اور نجف و کربلا ميں صاحبانِ ايمان کا قتل عام کرے گا- دوسرا حصہ مدينہ کي طرف جائے گا اور وہاں قتل عام کرے گا اور پھر مکہ کا رخ کرے گا ليکن مکہ تک رسائي نہ حاصل کر سکے گا- تيسرا حصہ بطرف شام روانہ ہوگا اور راستہ ميں لشکر امام عصر سے مقابلہ ہوگا اور اس حصہ کا ايک ايک شخص فنا کر ديا جائے گا- مکہ کي طرف جانے والا لشکر تين لاکھ افراد پر مشتمل ہوگا اور ايک صحرا ميں دھنس جائے گا، صرف دو افراد باقي رہيں گے- ايک مکہ کي طرف جا کر امام عصرں کي فتح کي بشارت دے گا اور دوسرا شام کي طرف جا کر سفياني کو لشکر کي ہلاکت کي اطلاع دے گا- اس کے بعد سفياني خود کوفہ کا رخ کرے گا اور پھر حضرت کا لشکر تعاقب کرے گا اور وہ فرار کر جائے گا يہاں تک کہ بيت المقدس ميں حضرت کے لشکر ہاتھوں واصل جہنم کر ديا جائے گا-

اس روايت ميں بھي اگرچہ نام اور نسب کا ذکر موجود ہے ليکن يہ دونوں باتيں عرف عام ميں کنايہ کے طور پر بھي استعمال ہوتي ہيں جس طرح کہ حضرت عائشہ نے قتل عثمان کي ترغيب ديتے وقت عثمان کا نام نہيں ليا تھا بلکہ نعثل کہہ کر ياد کيا تھا کہ مشابہت کي بنا پر دوسرا نام بھي استعمال کيا جا سکتا ہے- يہي حال شجرہ نسب کا بھي ہے کہ اس طرح کا قاتل و ظالم انسان يزيد بن معاويہ کے علاوہ کسي شخص کي طرف منسوب نہيں کيا جا سکتا ہے جس طرح کہ خود يزيد کے باپ نے زياد کو اتحاد کردار کي بنا پر اپنے شجرہ پر شامل کر ليا تھا-

بہرحال ايسے انسان يا ايسي طاقت کا ظہور ضروري ہے کہ خدا جانے کب انکشاف ہو جائے کہ موجودہ طاقت وہي طاقت ہے جسے سفياني سے تعبير کيا گيا ہے اور ظہور امام اور جہادِ امام کا قت آگيا ہے، لہٰذا مومنين کرام کو ہر وقت اس جہاد کے ليے تيار رہنا چاہيے اور کسي وقت بھي اپنے فرض سے غافل نہيں ہونا چاہيے-

4- قتل نفس زکيہ

يعني اولاد رسول اکرم ميں ايک محترم اور پاکيزہ نفس انسان کو خانہ کعبہ کے پاس رکن و مقام کے درميان قتل کر ديا جائے گا اور اس کے بعد حضرت کا ظہور ہوگا- ظاہر ہے کہ جب روايت ميں کسي تفصيل کا ذکر نہيں ہے تو کوئي بھي محترم کسي وقت بھي قتل ہو سکتا ہے اور اس کے بعد امام عصرں کا ظہور ہو سکتا ہے جب کہ حکومت وقت ہمہ وقت اولاد رسول کے قتل و خون کے درپے رہتي ہے-

5- خروج سيد حسني

ديلم اور قزوين کي طرف سے ايک سيد حسني جن کا شجرہ نسب امام حسن مجتبيٰں تک پہنچتا ہے خروج فرمائيں گے اور وہ نصرت امام کے حق ميں آواز بلند کريں گے جس پر طالقان کي ايک عظيم سپاہ آپ کے گرد جمع ہو جائے گي اور آپ کوفہ کا رخ کريں گے اور راستہ ميں ظالموں کا قلع قمع کرتے جائيں گے اور اس وقت يہ خبر نشر ہوگي کہ امام عصرں نے ظہور فرمايا ہے اور کوفہ تشريف لے آئے ہيں- سيد حسني ان کي خدمت ميں حاضر ہوکر ان سے دلائن امامت کا مطالبہ کريں گے تاکہ تمام لوگوں پر ان کي امامت کا اثبات ہو جائے اور اس کے بعد حضرت کي بيعت کريں گے ليکن ان کے ساتھيوں ميں چار ہزار افراد معجزات کو جادو کا نام دے کر نہروان کے خوارج کي طرح بيعت سے انکار کر ديں گے اور بالآخر سب کے سب تہہ تيغ کر ديے جائيں گے-

6- وسط ِ ماہِ رمضان ميں سورج گرہن اور آخر ماہِ رمضان ميں چاند گرہن کا واقع ہونا جو عام طور سے نہيں ہوتا ہے اور نہ قابل وقوع تصور کيا جاتا ہے-

7- آسمان ميں ايک پنجہ کا ظاہر ہونا يا چشمہ خورشيد کے قريب سے ايک صورت کا ظاہر ہونا جو اس بات کي علامت ہے کہ آنے والا منظر عام پر آرہا ہے اور قدرت کا منشاء ہے کہ ساري دنيا اس حقيقت سے باخبر ہو جائے اور کسي طرح کا ابہام نہ رہ جائے- اب اگر کسي انسان کو دن کا سورج بھي نظر نہ آئے تو ايسے بوم صفت اور شپرّہ چشم انسان کا کوئي علاج نہيں ہے-

چشمہ آفتاب سے شکل و صورت کا ظہور غالباً اس امر کي طرف بھي اشارہ ہے کہ امامت کا اقتدار زمين سے آسمان تک پھيلا ہوا ہے اور جس طرح پہلے امام نے آفتاب کو پلٹا کر اپني امامت اور بندگي کا ثبوت پيش کيا تھا اسي طرح آخري امام بھي آفتاب ہي کے ذريعہ اپنے اقتدار کا اظہار کرے گا اور اپنے دلائل کو روز ِ روشن کي طرح واضح کرے گا-

آفتاب کے وسيلہ قرار دينے ميں يہ اشارہ بھي پايا جاتا ہے کہ زمين کا سارا نظام آفتاب کي گردش کا تابع ہے اور آفتاب کي گردش اشارہ امام کي تابع ہے تو جو شخص بھي گردش آفتاب کو منقلب کر سکتا ہے اور ڈوبے ہوئے آفتاب کو مغرب سے نکال سکتا ہے وہ نظام عالم کو کيونکر منقلب نہيں کر سکتا ہے؟ اور ڈوبے ہوئے اسلام و ايمان کو مغرب سے کيوں نہيں نماياں کر سکتا ہے؟ ”‌ان ھذا الا اختلاق“-

مصنف: سيد ذيشان حيدر جوادي

الحسنين ڈاٹ کام


متعلقہ تحريريں:

امام زمانہ اور  شهادت طلبي اور سعادت خواہي