غصب فدک کي داستان
سيدہ نے فرمايا: خدا کي قسم! ميں تم پر ہر نماز ميں جو ميں ادا کرتي ہوں، نفرين کروں گي
ابن قتيبہ: خليفہ سيدہ (س) کے گھر سے نکلے تو کہنے لگے: اے لوگو! تم سب راتوں کو اپني بيويوں کے ساتھ اپني خوشيوں ميں مصروف ہو اور مجھے اس مصيبت سے دوچار کرچکے ہو؛ مجھے تمہاري بيعت نہيں چاہئے؛ آۆ اپني بيعت واپس لو اور مجھے مقام خلافت سے معزول کرو...
رشک و تعصب اگر اقتدار اور حکومت کا ساتھ پائے تو يہ بہت سے حقائق کو پسِ پردہ ابہام قراديتا ہے؛ حديث سوزي کا سلسلہ شروع کرسکتا ہے اور حديث سوزي کے بعد لوگوں کو بٹھا کر نئي احاديث کو حکمرانوں کے مفاد کے مطابق جعل کرسکتا ہے- ايسے افسوسناک حالات ميں جب قلم اہليان اقتدار کے قيد ميں ہوتا ہے اور حقيقت مظلوم اور تنہا ہوکر رہ جاتي ہے پھر بھي ايک چيز ہے جو حق کا تحفظ کرسکتي ہے اور وہ اشياء کي حقيقت و صداقت ہے جيسا کہ فرمايا گيا ہے کہ "ہر چيز کي حقيقت اس کي نگہبان ہے"-
جو کچھ يہاں آپ کي خدمت ميں پيش کيا جا رہا ہے ايک ديني ـ تاريخي ـ روائي ـ تحقيق ہے ايک حديث کے بارے ميں جو پيغمبر خدا (ص) سے منسوب کي گئي اور يادگار نبي سيدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہ کي املاک کو غصب کرنے کا بہانہ ٹہري- حديث بعنوان: "ما تركناه صدقة"-
ابتداء ميں ميں اپنے قارئين سے درخواست کرتا ہوں کہ ميري تحقيق کو بغير تحقيق کے قبول نہ کريں ليکن يہ احتمال ضرور ديں کہ "ممکن ہے کہ يہ باتيں درست ہوں" اور اس کے بعد ان کے بارے ميں تحقيق کريں- اور ہاں! تحقيق کے لئے مذکورہ منابع کے پرانے نسخوں کي طرف رجوع کريں تاکہ بہتر نتائج حاصل کرسکيں-
ہم يہاں مختلف روايات کا جائزہ ليتے ہوئے ايک ايسي حديث کا تجزيہ اور تحليل کرنا چاہتے ہيں جو تمام زمانوں ميں کرائے کو قلموں اور تعصب کي قيد ميں اسير ذہنوں نے اسلامي معاشروں کے افکار عامہ ميں پھيلا دي ہے-
ہم اس جعلي حديث کے جعلي پن کو مخالفين شيعہ کے منابع ميں موجود گوناگون روايات کي روشني اور انسان کو وديعت کي گئي عقل سليم کي مدد سے کشف کرکے اس کو رد کرتے ہيں- اميد ہے کہ يہ تحقيقي کام اللہ کے بندوں اور رسول اللہ (ص) کے ماننے والوں اور آپ (ص) کے امتي ہونے پر فخر کرنے والوں کے ہاں بھي بازار تحقيق کي رونق کا باعث بنے اور وہ طاقت و ثروت کے قدم چومنے والوں اور عوام کے جہل اور کم تعليم سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کي اندھادھند پيروي چھوڑ کر دين و قرآن اور سنت نبوي (ص) کي ہدايات کو چراغ راہ قرار ديں-
بے شک کوئي بھي عقلمند شخص اپني پوري عمر ايسے افراد کي تنزيہ و تطہير ميں گذار ديں اور اپنا پورا سرمايہ ان لوگوں کے دفاع ميں گذار کر حقائق کے ادراک سے غافل رہنا پسند نہيں کرتا-
اور اب داستان فدک اور حديث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا ماجرا
ابھي مدينہ کي فضائيں رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ کي معطر سانسوں سے معمور تھيں اور آپ (ص) کي الہي صدا ابھي اس مقدس شہر ميں گونج رہي تھي توحيد کي ندا کفر و شرک سے نجات کي دعوت کي صدائے بازگشت ابھي سنائي دے رہي تھي؛ ابھي دل کائنات کے بہترين انسان کے چلے جانے سے مغموم اور زخمي تھے اور پھر اہل مدينہ آپ (ص) کي بيٹي، ام ابيہا حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ عليہا کے گريہ و بکاء کي صدائيں سن رہے تھے اور آپ (س) کي صدائے شيون سن کر رويا کرتے تھے- زيادہ نہيں بلکہ صرف جرگۂ سقيفہ کے دس روز گذر رہے تھے صرف دس روز بہترين عالم کے وصال کے بعد، خليفہ کے کارندے خيبر کي طرف چلے اور اور خيبر کي طرف جاتے ہوئے خيبر کي زرخيز زمينوں ميں پہنچ گئے- يہ علاقہ جنگ کے بغير مسلمانوں کو ملا تھا اور سورہ کي چھٹي آيت نازل ہوئي جس ميں فرمان رباني ہے:
"وَمَا أَفَاء اللہ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللہ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاء وَ اللہ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"-
ترجمہ اور جو کچھ خدا نے ان سے اپنے رسول (ص) کي طرف لوٹايا ہے، ايسي چيز ہے جس کے حصول کے لئے نہ تو تم (مسلمانوں) نے گھوڑے دوڑائے ہيں نہ ہي اونٹ، مگر خدا اپنے رسل کو جس پر چاہے مسلط کرديتا ہے اور اللہ ہر چيز پر قدرت رکھتا ہے-
"مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ"-
ترجمہ: جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَيظہ، نَضِير، فِدَک، خَيبر، عُرَينہ سميت ديگر بغير جنگ کے مفتوحہ) بستيوں والوں سے اپنے رسول (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) پر لوٹائے ہيں وہ اللہ اور اس کے رسول (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے لئے ہيں اور (رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں (يعني بنو ہاشم اور بنو المطّلب) کے لئے اور يتيموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہيں، تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درميان ہي نہ گردش کرتا رہے (لکہ معاشرے کے تمام طبقات ميں گردش کرے)- اور جو کچھ رسول (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) تمہيں عطا فرمائيں سو اُسے لے ليا کرو اور جس سے تمہيں منع فرمائيں سو (اُس سے) رُک جايا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (يعني رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي تقسيم و عطا پر کبھي زبانِ طعن نہ کھولو)، بيشک اللہ سخت عذاب دينے والا ہے-
اس آيت ميں اللہ تعالي نے اس جائيداد کي مالکيت کا فيصلہ سنا ديا اور اس کے بعد فدک کي سرزمين کي تمليک کي باري آئي تو سورہ اسراء کي آيت 26 نازل ہوئي جس ميں فرمايا گيا:
"وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا"
ترجمہ: اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کريں کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھي اور فضول خرچي مت کرو-
چنانچہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فدک کو بيٹي فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا کے نام ہبہ کرديا- چنانچہ يہ ترکہ نہ تھا بلکہ سيدہ کي ذاتي جائيداد تھا جو رسول اللہ صلي اللہ عليہا نے آپ (س) کو ہبہ کرديا تھا- اب يہ دوسرا مسئلہ ہے کہ کيا کسي عام مسلمان کا ہبہ شدہ مال کوئي دوسرا فرد ـ ترکہ کا نام ديکر اور جھوٹي حديث وضع کرکے ـ ضبط کرسکتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کا ہبہ کردہ فدک حکومت وقت ضبط کرسکے- يہ الگ بات ہے کہ جب عام مسلمان کا ترکہ ہوسکتا ہے تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و وسلم کا ترکہ کيوں نہيں ہوسکتا جبکہ ايک مقام پر ابوبکر نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي ذاتي چيزيں علي عليہ السلام کے حوالے کرديں اور کہا کہ يہ رسول اللہ (ص) کي اشياء ہيں اور آپ رسول اللہ (ص) کے وارث ہيں- اس بات کي طرف بھي آني والي سطروں ميں اشارہ ہوگا-
بہرحال خليفہ کے کارندے فدک ميں داخل ہوئے اور سيدہ کے مزارعين اور کارکنان کو فدک کے ديہاتوں اور زمينوں اور باغوں سے نکال باہر کيا اور اس علاقے کو خليفہ کي نمائندگي ميں غصب کرديا- بالفاظ ديگر خليفہ اول کا اولين انتظامي اقدام يہي تھا کہ انھوں نے خليفہ رسول کے عنوان سے آنحضرت کي ہبہ شدہ جائيداد کو آپ (ص) کي بيٹي سے بغير کسي شرعي اور عرفي و عقلي دليل کے، چھين ليا-
شرعي قاعدہ يہي ہے کہ جب کسي نے کوئي مال کسي کو ہبہ کرکے ديا ہو ضروري نہيں ہے کہ اس کے لئے وصيت ميں بھي اس مال کا ذکر کرے اور اس کو دوبارہ ارث کے عنوان سے اس شخص کے لئے قرار دے کيونکہ يہ مال ہبہ کرنے والے کا ترکہ شمار نہيں ہوتا بلکہ اس شخص کا مال و ملک ہے جس کو بعنوان ہبہ ديا گيا ہے- اور جو جائيداد رسول اللہ (ص) نے اپني بيٹي کو ہبہ کرکے ديا تھا اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي حيات طيبہ کے دوران بھي سيدہ (س) کے ہاتھ ميں تھي چنانچہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا وصال ہوتے ہي يہ وہبي جائيداد رسول اللہ (ص) کے ارث ميں تبديل نہيں ہوئي اور ہم نے يہ بحث يہ ثابت کرنے کے لئے شروع نہيں کي ہے کہ فدک رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ارث کے عنوان سے حضرت سيدہ (س) کا حق تھا بلکہ حکومتي مشينري اس داستان کے ضمن ميں متعدد مقاصد اور اہداف کے حصول کو مطمع نظر قرار دے چکي تھي؛ وہ اس داستان کے توسط سے متعدد دوسرے حقائق کو متنازعہ بنانا چاہتي تھي اور آپ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ارث کو بھي مکمل طورپر مٹانا چاہتي تھي-
بشکريہ: اہل البيت (ع) نيوز ايجنسي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
غير قانوني حکومت اور بچوں پر ظلم