شيعيان پاکستان کے تحفظ کے لئے فوري اقدام کيا جائے
ہيومين رائٹس واچ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کيا کہ پاکستان ميں شيعہ آبادي کي جاني حفاظت کے لئے فوري اقدامات کرے اور فرقہ پرست گروہوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کا فوري تدارک کرے-
اہل البيت (ع) نيوز ايجنسي ـ ابنا ـ کي رپورٹ کے مطابق ہيومين رائٹس واچ نے اپنے بيان ميں کہا ہے:
کم از کم 320 شيعہ 2012 کے آغاز سے اب تک ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر جان بحق ہوگئے ہيں جن ميں سے اکثريت کا تعلق (کوئٹہ ميں) ہزارہ معاشرے سے تھا اور ان ميں ايک سو قتل صوبہ بلوچستان ميں ہوئے ہيں-
ايشيا ميں ہيومين رائٹس واچ کے ڈائريکٹر، براڈ آدامز (Brad Adams) نے اپني رپورٹ ميں پاکستان کي شيعہ برادري پر مہلک قاتلانہ حملوں ميں اضافے کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے اور ان حملوں کو منظم کرنے والے انتہاپسندوں کے تعاقب اور گرفتاري ميں حکومت کي ناکامي ظاہر کرتي ہے کہ حکومت اس قتل عام کي نسبت بالکل لاتعلق ہے-اس بيان ميں کہا گيا ہے کہ عسکريت پسند گروپ ـ جيسے بظاہر کالعدم گروپ "لشکر جھنگوي" کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہے اور يہ گروپ پورے پاکستان ميں وسيع سطح پر سرگرم عمل ہے جبکہ حکومت کے سيکورٹي اور جاسوسي کے اداروں نے گويا اپني آنکھيں بند کررکھي ہيں-اس رپورٹ کے مطابق (بظاہر کالعدم اور درحقيقت علي الاعلان سرگرم گروپ) لشکر جھنگوي 1990 ميں تشکيل پايا اور 2001 ميں پرويز مشرف نے اس گروہ کو (بظاہر) کالعدم ڈيکلئير کيا اور يہ گروپ آج تک سينکڑوں شيعہ باشندوں اور متعدد ايراني سفارتکاروں اور عام شہريوں کے قتل ميں ملوث اور ان تمام قتلوں کا ذمہ دار ہے-اس گروہ کا سرغنہ ملک اسحق "سعودي عرب کے دورے!؟" سے واپسي پر لاہور کے ہوائے اڈے سے گرفتار ہوکر جيل ميں بند کيا گيا جبکہ يہ شخص اس سے قبل بھي بارہا گرفتار ہوا ہے ليکن تھوڑا عرصہ قيد ميں رہنے کے بعد رہا ہوگيا ہے- آدامز کے مطابق، ملک اسحق کي گرفتاري ـ جو کم از کم 70 افراد کے قتل کا ملزم ہے ـ آج پاکستان کي عدليہ اور اس کے "تعزيري انصاف" کے نظام کے لئے اہم آزمائش کي شکل اختيار کرگئي ہے!- اس بيان ميں کہا گيا ہے کہ بعض انتہا پسند گروپ "پاکستاني فوج"، "پاکستاني انٹيليجنس ايجنسيوں"، يا "فرنٹيئر کور" جيسے نيم فوجي اداروں کے "حليفوں" کي حيثيت سے پہچانے جاتے ہيں- ہيومين رائٹس واچ نے اپنے بيان ميں کہا ہے کہ پانچ دن قبل دو موٹرسائيکلوں پر سوار چار بندوق برداروں نے کوئٹہ کے ہزار گنجي نامي علاقے ميں ايک بس کو روکا اور شيعہ سبزي فروشوں کو بس سے اتار کر قتل کرديا- اس بيان کے مطابق اس دن دو حملوں ميں کوئٹہ ميں مجموعي طور پر آٹھ شيعہ باشندوں کو قتل کيا گيا- 30 اگست 2012 کو بھي نامعلوم مسلح افراد نے کوئٹہ ميں ايک شيعہ سيشن جج ذوالفقار حسنين نقوي کو ـ جو کہ شيعيان کوئٹہ کے قتل کيسز اور لشکر جھنگوي کي سرگرميوں کي پيروي کرنے پر مأمور تھے ـ کو ان کے ڈرائيور اور پوليس گن مين سميت قتل کرديا- جس پر پاکستاني جماعتوں اور مختلف گروپوں نے رد عمل بھي ظاہر کيا- اس رپورٹ کے مطابق 1980 کے عشرے کے اواخر سے لے کر اب تک ان فرقہ وارانہ حملوں ميں ہزاروں افراد جان بحق ہوچکے ہيں- ہيومين رائٹس واچ کي رپورٹ کے مطابق 16 اگست 2012 کو پاکستان کے شمال ميں مسلح افراد نے 20 شيعہ مسافروں کو ايک بس سے اتارا اور انہيں ايک غير آباد نقطے پر قتل کرديا- آدامز کا کہنا تھا کہ پاکستان کي حکومت ايک لاپرواہ تماشائي کا کردار ادا نہيں کرسکتي جبکہ پورے پاکستان ميں شيعہ باشندوں کے خون کي ہولي کھيلي جارہي ہے اور انہيں ذبح کيا جارہا ہے-ايک طرف سے ہيومين رائٹس واچ نے تقريبا 25 سالہ تاخير کے ساتھ شيعہ قتل عام کا مسئلہ اٹھايا ہے اور دوسري طرف سے اس نے پاکستان کي کلي صورت حال کي طرف توجہ نہيں دي ہے اور براڈ آدامز يا براڈ ايڈمز نے کراچي، سندھ، ڈيرہ اسمعيل خان، پاراچنار، ہنگو اور ملک کے دوسرے شہروں ميں شيعہ قتل عام کو ابھي تک لائق اعتنا نہيں سمجھا ہے اور يہ شيعہ اہل قلم اور صحافيوں کي ذمہ داري ہے کہ شيعہ قتل عام کي خبريں اور دستاويزات فوري طور پر ہيومين رائٹس واچ، اقوام متحدہ کي ہيومين رائٹس کونسل اور ہيومين رائٹس کميشن نيز ايمنسٹي انٹرنيشنل کے لئے روانہ کريں-