• صارفین کی تعداد :
  • 2793
  • 8/15/2012
  • تاريخ :

جنت البقيع کي خونين داستان

جنت البقیع

جنت البقيع تاريخ اسلام کے جملہ مہم آثار ميں سے ايک ہے ، جسے وہابيوں نے 8شوال 1343 مطابق مئ 1925 کو شہيد کرکے دوسرے کربلا کي داستان کو قلمبند کرکے اپنے يزيدي افکار اور عقيدے کا برملا اظہار کيا ہے -

قبرستان بقيع (جنت البقيع) کے تاريخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ يہ مقبرہ صدر اسلام سے نہايت ہي محترم کا مقام رکھتا تھا - حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے جب مدينہ منورہ ہجرت کي تو قبرستان بقيع مسلمانوں کا اکلوتا قبرستان تھا اور ہجرت سے پہلے مدينہ منورہ کے مسلمان "بني حرام" اور "بني سالم" کے مقبروں ميں اپنے مردوں کو دفناتے تھے - اور کبھي کبار تو اپنے ہي گھروں ميں اپنے مردوں کو دفناتے تھے اور ہجرت کے بعد رسول خدا حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے حکم سے بقيع کہ جس کا نام "بقيع الغرقد" بھي ہے مقبرہ کيلئے مخصوص ہو گيا-

جنب البقيع ميں سب سے پہلے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے مخلص صحابي اور حضرت علي ابن ابيطالب عليہم السلام کے قريبي ساتھي اور دوست "جناب عثمان بن مظعون" دفنائے گئے جن کے بارے ميں حضرت علي عليہ السلام اپنے گفتگو کے درميان بہت زيادہ ياد کرتے اور حضرت علي کا حضرت عثمان بن مظعون کے بارے ميں انکي محبت کا اندازہ لگايا جاسکتا ہے کہ اپنے ايک بيٹے کا نام عثمان رکھا تھا -

جنت البقيع ہر اعتبار سے تاريخي ، مہم اور مقدس ہے - حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے جنگ احد کے بعض شہداء کو اور اپنے بيٹے "ابراہيم " کو بھي جنت البقيع ميں دفنايا ہے - اس کےعلاوہ محمد و آل محمد صلوات اللہ عليہ و عليہم اجمعين کے مکتب يعني مکتب اہل بيت کے پيروکاروں کيلئے بقيع کے ساتھ اسلامي اور ايماني وابستگي ہے کيونکہ يہا ں پر چار معصومين دوسرے امام حضرت حسن بن علي عليہم السلام ، چوتھے امام حضرت علي بن حسين زين العابدين عليہم السلام ، پانچويں امام حضرت محمد بن علي الباقر عليہم السلام اور چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد صادق عليہم السلام کا جاي مدفن ہے -

اسکے علاوہ ازواج رسول خدا حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، زوجہ ولي خدا علي مرتضي، ام البنين فاطمہ بنت اسد والدہ مکرمہ علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس عليہ السلام، حضرت کے چچا "عباس" اور کئ بزرگ صحابي حضرات مدفون ہيں -

تاريخ اسلام کا گہوارہ" مکہ مکرمہ" اور" مدينہ منورہ" رہا ہے جہاں تاريخ اسلامي کے کليدي آثار ہونا طبيعي امر ہے ليکن وہابيت کي آمد سے "شرک"کے عنوان سے بے منطق و برہان قرآني ان تمام تاريخي اسلامي آثار کو محو کرنے کا سلسلہ بھي شروع ہو ا جس پرعالم اسلام ميں مکتب اہل بيت عليہم السلام کو چھوڑ کر سبھي مجرمانہ خاموشي اختيار کئے ہوئے ہيں -

تاريخ کا مطالعہ کرنے اور سيّاحوں اور سفرناموں سے تاريخ اسلام کے آثار قديمہ کي حفاظت اور موجودگي کا پتہ ملتا ہے از جملہ جنت البقيع کہ جس کي دور وہابيت تک حفاظت کي جاتي تھي اور قبروں پر کتيبہ لکھے پڑے تھے جس ميں صاحب قبر کے نام و نشاني ثبت تھے وہابيوں سے سب محو کرديا ہے-يہاں تک ائمہ معصومين عليہم السلام کے قبروں پر جو روضے تعمير تھے ان کو بھي مسمار کرديا ہے -

جنت البقيع کے آثار کے بارے ميں "مصر" کے " محمد لبيب مصري" نامي شخصيت کے سفر نامے ميں بھي ملتا ہے جنہوں نے 1327 ہجري قمري ميں سعودي عربيہ کا سفر کيا تھا- وہ اپنے سفرنامے ميں جنت البقيع کے بارے ميں لکھتے ہيں کہ: وہاں (جنت البقيع ميں ) پر "قبہ البين" نامي معروف گنبد ہے جہاں پر ايک کمرہ ہے جس ميں ايک گھڑا ہے جس کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ وہاں پر پيغمبر خدا صلي اللہ عليہ وآلہ و سلم کے دندان مبارک گرے ہيں - اور قبہ کے اندر امام حسن کا ضريع ہے جو کہ سٹيل کا بنا ہوا ہے جس پر فارسي خطاطي سے لکھا ہوا ہے - ميرے خيال سےعجم (غير عرب) شيعوں کے آثار ہوں گے -

وہابي جس بارے ميں زيادہ حساس ہيں وہ قبروں پر تعمير کا ہے خاص کر پيغمبروں ، اولياء الہي اور صالحين کي قبروں کا مسئلہ ہے - اس کے بارے ميں سب سے پہلے "ابن تيميہ" اور اسکے معروف شاگرد"ابن قيّم" نے اپني رائے ظاہر کرکے روضوں اور آستانوں کو منہدم کرنے کا فتوي صادر کيا تھا -

ابن قيّم نے اپني کتاب ميں لکھا ہے : «جو تعميرات قبور پر بنائي گئ ہيں انہيں منہدم کرنا واجب ہے اور منہدم کرنے پر قبر پر حتي ايک دن کيلئے آثار کا باقي رکھنا جائز نہيں ہے »جب سعوديوں نے 1344 ہجري قمري ميں مکہ مکرمہ اور مدينہ منورہ پر تسلط حاصل کيا انہوں نے "بقيع" اور حضرت رسول خدا صلي اللہ آلہ وسلم انکے اہلبيت عليہم السلام اور اصحابہ منتجبين کے آثارکو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کيا جس کي آغاز  8 شوال 1343 مطابق مئ 1925 کو ہوا ہے جو کہ ابھي تک جاري ہے -

تحریر:  آغا سيد عبدالحسين بڈگامي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

کيا مدينہ کے گھروں کے دروازے تھے؟